امرود

امرود کا نباتاتی نام (Psidium guajava) ہے۔امرود پاکستان کاچوتھا اور صوبہ پنجاب کا تیسرا اہم پھل ہے۔

فصل کے بارے

اہمیت

امرود جسے غریبوں کا سیب کہا جاتا ہے۔اس کا آبائی وطن شمالی امریکہ( میکسیکو )اور جنوبی امریکہ ( پیرو)کا درمیانی علاقہ ہے۔ وہاں سے یہ دنیا کے دوسرے ممالک مثلاً کیوبا، کیلیفورنیا، برازیل، ہوائی، ملایا، ہندوستان اور پاکستان میں پھیلا۔ غذائی خصوصیات اور اچھا ذائقہ رکھنے کی بدولت اب پوری دنیا میں کاشت ہو رہا ہے۔ 
امرود کا نباتاتی نام (Psidium guajava) ہے۔امرود پاکستان کاچوتھا اور صوبہ پنجاب کا تیسرا اہم پھل ہے۔ پاکستان میں 2014-15 میں اس کی پیداوار 488ہزار ٹن ہے۔ پنجاب میں اس کی وسیع پیمانے پر کاشت شیخوپورہ، ننکانہ صاحب، اوکاڑہ، قصور، ساہیوال ، ملتان، بہاولپور، بہاوالنگر اورفیصل آباد اور سندھ میں لاڑکانہ، دادو، شکارپور اور حیدر آباد کے اضلاع میں کی جاتی ہے اور خیبر پختونخواہ کے ہر ی پور ہزارہ ، ڈیرہ اسماعیل خاں، کوہاٹ، بنوں اور مردان اضلاع قابل ذکر ہیں۔ 
غذائی اجزاء و طبی خواص
امرود میں حیاتین ج(Vitamin C) سب سے زیادہ ہوتا ہے ۔ امرود میں حیاتین ج ترشاوہ پھل کی نسبت چار سے پانچ گنا زیادہ پایا جاتا ہے۔ حیاتین ج کے علاوہ امرود حیاتین الف (Vitamin A)، حیاتین ب(Riboflavin) فاسفورس، کیلشیم اور آئرن کا بھی اہم ذریعہ ہے۔ اس پھل کو بے پناہ غذائی خصوصیات کی وجہ سے دوسرے پھلوں پر فوقیت حاصل ہے۔ کچے امرود کا مزاج سرد تر ہوتا ہے جبکہ پکے ہوئے پھل کا مزاج گرم تر ہوتا ہے۔ یہ پھل بہت ثقیل ہوتا ہے۔ معدہ اسے تین سے چار گھنٹے میں ہضم کرتا ہے۔ اگر اسے نمک مرچ کے ساتھ استعمال کیا جائے تو جلد ہضم ہو جاتا ہے۔ امرود خونی بواسیر میں اکسیر کا درجہ رکھتا ہے۔امرود میں قبض دور کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہ قوت ہاضمہ کو تقویت دیتا ہے۔ بھوک کی کمی، آنتوں کی صفائی اور متلی کے لئے انتہائی مفید ہے۔ دل و معدہ کو طاقت اور فرحت بخشتا ہے۔ اس کے بیج پیٹ کے کیڑوں کے قاتل ہیں۔ اس کے پتے دست کی بیماری کے لئے انتہائی مفید ہیں۔ 
مصنوعات
امرود جیم، جیلی، سکوائش، جوس بلینڈ، جوس کنسنٹریٹ اور کینڈی بنانے کے کام آتا ہے۔ کچے امرود کا سالن بھی بنایا جا سکتا ہے۔ پکے امرود کادہی میں لذیذ رائیتہ بھی بنایا جاتا ہے۔ 
آب و ہوا
امرود گرم اور نیم مرطوب خطوں کا پھل ہے مگر زیادہ تر یہ نیم گرم مرطوب آب و ہوا میں خوب پرورش پاتا ہے اور خوب پھیلتا ہے۔ 1000سے1500میٹر سطح سمندر کی بلندی تک کامیابی سے کاشت کیا جاتا ہے۔23سے28سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر اس کی نشوونما بہت اچھی ہوتی ہے۔ یہ پودا زیادہ سردی کو قبول نہیں کرتا۔ اگر درجہ حرارت صفر سینٹی گریڈسے نیچے گر جائے تو چھوٹے پودے مرجھا جاتے ہیں مگر بڑے پودے برداشت کر لیتے ہیں۔ اس لئے پہلے تین سال سردی سے بچاؤ کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ پھول اور پھل کے وقت اس کو خشک آب و ہوا درکار ہوتی ہے۔ زیادہ درجہ حرارت اور تیز ہوائیں پھل کے گرنے کا باعث بنتی ہیں۔ زیادہ بارش بھی اس کے پھل کے لئے نقصان دہ ہے کیونکہ پھل کی خاصیت خراب ہو جاتی ہے اور پھل پھٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ 

بیج

اقسام
صراحی

اس کا پھل لمبوترا اور گردن صراحی دار ہوتی ہے اور پھل ناشپاتی کی مانند ہوتا ہے۔ پھل کا سائز درمیانہ، چھلکا صاف اور گودا سفید ہوتا ہے۔ بیجوں کی مقدار کم ہوتی ہے۔ صراحی دو قسم کی ہوتی ہیں۔ چھوٹی صراحی اور بڑی صراحی۔ چھوٹی صراحی امرود کی دیگر اقسام کی نسبت جلدی پک جاتی ہے۔ پھل کا سائز چھوٹا ہونے کی وجہ سے موسم سرما کے دوران بھی پوری طرح پک جاتا ہے۔ اوسط پیداوار 90تا100کلوگرام فی پودا ہے۔
لاڑکانہ صراحی
اس کا پھل لمبوترا اور گردن صراحی دار ہوتی ہے۔ اس کا چھلکا کھردرا اور گودے کا رنگ سفید ہوتا ہے۔ اس میں بیج قدرے کم ہوتے ہیں۔ اوسط پیداوار 80تا100کلوگرام فی پودا ہے۔
گولا
اس کا پھل گول، رنگ سفید، درمیانہ سائز، چھلکا صاف پرکشش، ذائقہ کافی لذیذ اور میٹھا ہوتا ہے۔ پھل میں بیجوں کی مقدار بھی مناسب ہوتی ؂ہے۔ اوسط پیداوار80تا100کلو گرام فی پودا ہے۔
کریلا
پھل لمبوترا اور گردن صراحی دار ہوتی ہے۔ اس قسم کا پھل دیکھنے میں کریلے یا ناشپاتی کی مانند ہوتا ہے۔ اس کا چھلکا کھردرا اور گودے کا رنگ سرخ یا سفید ہوتا ہے۔ اس کی اوسط پیداوار60تا 75کلو گرام فی پودا ہے۔
سرخا
اس قسم میں پھل گول، چھلکا صاف اور گودا سرخ ہوتا ہے۔ گودے کے سرخ رنگ کی وجہ سے اسے سرخا کہا جاتا ہے۔ اس قسم میں مٹھاس کم ہوتی ہے ۔لیکن دیکھنے میں خوشنما ہوتا ہے۔ اوسط پیداوار65تا80کلو گرام فی پودا ہے۔ اس کا پھل جیم، جیلی اور سکوائش وغیرہ بنانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ 

کاشت

زمین
امرود ہر قسم کی زمین میں بار آور ہوتا ہے۔ یہ بھاری سے لے کر ہلکی ریتلی زمین میں اگایا جا سکتا ہے مگر دوسرے پھلدار درختوں کی طرح زرخیز میرا زمین زیادہ موزوں ہے۔ یہ پودا دوسرے پودوں کی نسبت سیم اورتھورزدہ علاقوں میں بھی کامیابی سے کاشت کیا جا سکتا ہے۔ ایسی زمینیں جن کی پی۔ایچ (pH) 6.5 سے 8.5ہو اس کی کاشت کے لیے موزوں ہیں۔ 
افزائش نسل
امرود کی افزائش نسل مندرجہ ذیل طریقوں سے کی جاتی ہے۔
1۔ بذریعہ بیج
امرود زیادہ تر بذریعہ بیج کاشت ہوتا ہے۔اس طریقہ میں اچھی کوالٹی کے پھلوں کو دھو کر ان سے بیج بحفاظت نکال کر ریت میں مسل کرگوداعلیحدہ کرلیں ۔ امرودکے بیج کا چھلکا کافی سخت ہونے کے باعث اگاؤ میں مشکل پیش آتی ہے۔ لہٰذا زیادہ اگاؤ حاصل کرنے کے لئے امرود کے بیج کو24سے36گھنٹے کے لئے پانی میں بھگوئیںیا امرود کے صاف بیج کو 10 فیصد ہائیڈروکلورک ایسڈ کے محلول میں3سے 5منٹ تک رکھنے اور دھونے کے بعد کاشت کریں۔ ان بیجوں کو کاشت کرنے کے لئے1.5میٹر لمبی اور ایک میٹر چوڑی جبکہ 20سے25سینٹی میٹر اونچی پٹڑیاں بنائیں۔ان پٹڑیوں پر10سے15سینٹی میٹر کے فاصلے پر لائنیں لگا کر 2سینٹی میٹر کی گہرائی پر کاشت کر کے بھل سے ڈھانپ دیں اور مناسب نمی برقرار رکھیں۔بیج4سے5ہفتوں میں اگ آئیں گے۔ جب پودے 8سے10سینٹی میٹر کے ہو جائیں تو انہیں کیاریوں میں منتقل کر دیں۔تقریباََ ایک سال بعد پودے باغ میں لگانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ بیج لگانے کا بہترین موسم جولائی اگست اور فروری مارچ ہے۔ یاد رہے کہ بذریعہ بیج تیارشدہ امرودکوالٹی کے لحاظ سے یکساں نہیں ہوتے۔
2۔ بذریعہ پیوند کاری
ایک سال کے تخمی پودوں پر فروری، مارچ یا ستمبر، اکتوبر میں بہترین اقسام کا پیوند بذریعہ ٹی گرافٹنگ کیا جا سکتا ہے۔ مطلوبہ قسم کی 15 سینٹی میٹر لمبی شاخ کے نچلے سرے کو ترچھا کاٹ کر روٹ سٹاک پر لگائے گئے "T"نما کٹ میں پیوند کر دیا جاتا ہے۔ اوپر سے پولی تھین کی شیٹ چڑھا دی جاتی ہے۔ چشمے پھوٹنے پر پولی تھین کی شیٹ اتا ر دیں۔ 
3۔ بذریعہ قلم کاری
اس طریقہ کا ر سے امرود کے صحیح النسل پودے تیار کئے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے قلمیں لینے کے لئے صحتمند پودے کا انتخاب کریں اور اگست اور ستمبر کے مہینوں میں صحت مند شاخیں لیں۔ قلمیں بنانے کے لئے ہر قلم کے دو پتے رکھ کر باقی پتے کاٹ دیں اور 3سے4انچ لمبی قلمیں تیار کریں۔ قلمیں شاخوں کے سروں سے بنائیں۔ 
امرود کی قلمیں لگانے کے لئے پلاسٹک کی ٹنل نہایت ضروری ہے۔ تقریباً چار سے پانچ فٹ چوڑی ، دو سے اڑھائی فٹ اونچی اور سات سے آٹھ فٹ لمبی لوہے کے سریے کی ایک ٹنل بنائیں جس کو پولیتھین کے شاپر سے ڈھانپ دیں۔ ٹنل کے اند رمٹی، بھل اور ریت برابر حصّوں میں ملا کر چار سے پانچ انچ تک بھر دیں۔ قلموں کے لگانے سے پہلے قلموں کے نچلے سروں کو 4000پی پی ایم انڈول بیوٹائرک ایسڈ میں ڈبو کر تیار کی گئی کیاری میں اس طرح لگائیں کہ قلم کا 1/3حصّہ باہر رہے۔ ٹنل کے اندر درجہ حرارت 25تا28سینٹی گریڈ اور نمی 80سے85 فیصدہونی چاہیے۔ٹنل کے اندر قلم سے قلم کا فاصلہ اور قطار سے قطار کا فاصلہ 8سے10 سینٹی میٹر ہونا چاہیئے۔قلمیں مربع نما طریقے سے لگانی چاہئیں۔پھپھوندی لگنے کی صورت میں پھپھوند کش دوائی ٹاپسن ایم بحساب 2 گرام فی لیٹر پانی استعمال کریں۔
داغ بیل اور پودے لگانا
امرود کے باغات عام طور پر مربع نما طریقے سے لگائے جاتے ہیں۔ پودے سے پودے کا فاصلہ اور قطار سے قطار کا فاصلہ 18 x 18 فٹ رکھا جاتا ہے۔ اس طریقے سے تقریباً 132پودے فی ایکڑ لگائے جاتے ہیں۔ آج کل کثیرالتعداد پودے لگانے کا رواج پروان چڑھ رہا ہے ۔ اس کے لئے زیادہ نمی والے علاقوں میں پودے سے پودے اور قطار سے قطار کا فاصلہ x15 15فٹ رکھتے ہیں۔ اس طریقے میں182پودے فی ایکڑ لگائے جاتے ہیں۔ کم بارش والے علاقوں اور کمزور زمینوں میں پودے سے پودے کا فاصلہ 8فٹ اور قطار سے قطار کا فاصلہ 20فٹ رکھنے سے 264پودے فی ایکڑ لگائے جا سکتے ہیں۔ اگر قطار سے قطار کا فاصلہ 12فٹ اور پودے سے پودے کا فاصلہ 6فٹ رکھا جائے تو اس لحاظ سے فی ایکڑ 594پودے لگائے جا سکتے ہیں۔ قطار سے قطار کا فاصلہ 10فٹ اور پودے سے پودے کا فاصلہ 5فٹ رکھنے سے 858پودے فی ایکڑ لگائے جا سکتے ہیں۔
پودے لگانے سے پہلے زمین کو اچھی طرح ہموار اور تیار کر کے 3فٹ لمبا، 3فٹ چوڑا اور 3فٹ گہرا گڑھا کھودیں۔ اوپر والی ایک فٹ کی زرخیز مٹی کو علیحدہ رکھ لیں۔ گڑھوں کو تقریباً تین ہفتے کھلا رکھیں تاکہ زمینی جراثیم دھوپ اور روشنی کی وجہ سے مر جائیں۔ ان گڑھوں کو ایک حصہ بھل، ایک حصہ گلی سڑی گوبر کی کھاد اور ایک حصہ گڑھے کی اوپر ولی ایک فٹ کی زرخیز مٹی ملا کر بھر دیئے جائیں اور گڑھوں کو پانی سے بھر دیا جائے۔ وتر آنے پر گڑھوں میں پودے لگا دیں۔ پودے کے ارد گرد مٹی کو اچھی طرح دبا دیں۔ پانی دینے سے پہلے پودے کے تنے کے ساتھ مٹی چڑھا دیں اور پانی لگا دیں۔ پودے لگانے کا بہترین موسم فروری، مارچ اور ستمبر، اکتوبر ہے۔ امرود کے باغات مستطیل طریقے سے بھی لگائے جاتے ہیں۔ قطاروں کا رخ شمال سے جنوب کی طرف رکھتے ہیں۔ اس طریقہ سے لگائے گئے پودوں کی کانٹ چھانٹ بہت اہمیت کی حامل ہے۔ 

باغ میں فصلات کی کاشت
امرود کے پودے لگانے کے بعد ابتدائی سالوں میں یعنی پھل شروع ہونے سے پہلے فصلیں کاشت کی جاسکتی ہیں۔ سبزیاں اور پھلی دار اجناس امرود کے پودوں کے لئے بھی مفید ہوتی ہیں سبزیوں میں گاجراور مولی کاشت کی جا سکتی ہے۔ پھلی دار اجناس میں چنے وغیرہ کو کاشت کیا جا سکتا ہے ۔ امرود کے پودے کی جڑیں زمین کی سطح کے قریب ہوتی ہیں اس لئے اس میں زیادہ گہرائی تک ہل وغیرہ نہیں چلانا چاہئے کیوں کہ اس سے جڑیں زخمی ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور پودوں کو زمین سے خوراک حاصل کرنے میں رکاوٹ ہوتی ہے۔ 

بیماریاں

امرود کا مرجھاؤ
اس بیماری میں پودے کی جڑیں متاثر ہوتی ہیں اور کام کرنا بند کر دیتی ہیں جس سے پودا آہستہ آہستہ سوکھ جاتا ہے۔ متاثرہ پودے کی جڑوں اور شاخوں کا نمونہ پیتھالوجیکل لیبارٹری میں دے کر اس کا تجزیہ کرایا جائے۔ اگر بیماریPhytophthoraپھپھوندی کی وجہ سے ہو توریڈومِل گولڈ2.0گرام فی مربع فٹ کے حساب سے پودے کی چھتری کے نیچے زمین میں استعمال کی جائے۔ اگر جڑوں کا گلنا سڑناFusariumپھپھوندی کی وجہ سے ہے تو تھائیو فینیٹ میتھائل 1.5 گرام فی مربع فٹ کے حساب سے پودوں کی جڑوں میں ڈالیں۔ (Picture-13)


امرود کا سوکا


یہ بیماری اکثر امرود کے باغات میں پائی جاتی ہے۔ اس بیماری سے متاثرہ شاخیں چوٹی سے نیچے کی طرف سوکھنا شروع ہو جاتی ہیں اور متاثرہ پودوں پر سوکھی ہوئی ٹہنیاں نظر آتی ہیں۔ سوکھی ،بیمار اور متاثرہ شاخوں کو6انچ پیچھے سے کاٹ کر تھائیو فینیٹ میتھائل بحساب1.5 گرام فی لیٹر پانی میں حل کر کے سپرے کیا جائے۔ (picture-14)
امرودکی چتری:
ایسے باغات جن میں پودے آپس میں جڑ جاتے ہیں اور ہوا اور روشنی کا گزر مشکل ہو جاتا ہے۔ ان میں اکثر پھل گلنا سڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ موسم برسات میں یہ حملہ شدت اختیار کر لیتا ہے۔ پھل پر پہلے زردی مائل نشان پڑتا ہے جو کہ بعد میں بڑھتا جاتا ہے اور آدھا یا 3/4حصہ گل جاتا ہے۔ پھل کا لا ہو کر گر جاتا ہے۔ اس بیماری کے تدارک کے لئے امرود کے پودوں کی اس طرح کٹائی کریں کہ پورا کھیت ہوا دار بن جائے۔ کٹائی کے بعد پودوں پر کاپر ہائیڈرو آکسائیڈیا کوسائیڈ(Kocide) بحساب 2.5گرام فی لٹر پانی میں سپرے کریں۔(Picture-15)

کیڑے

کیڑے  اور ان کا تدارک
پھل کی مکھی
پھل کی مکھی کا حملہ زیادہ تر گرمیوں کے موسم میں ہوتا ہے۔ یہ مکھی پھل کے اندر اپنا ڈنگ داخل کر کے انڈے دیتی ہے جن سے چھوٹی چھوٹی سنڈیاں پیدا ہوتی ہیں جو گودے کو کھانا شروع کر دیتی ہیں اور پھل گل سڑ کر زمین پر گر جاتا ہے۔ گرے ہوئے پھل کو اکٹھا کر کے زمین میں دبا دیا جاتا ہے۔ اس پر قابو پانے کے لئے ایک ایکڑ میں 4سے6عدد جنسی پھندے لگا کر اس میں میتھائیل یوجینال(Methyl euginol)سے زہر آلودروئی کے ٹکڑے رکھ دیئے جاتے ہیں جس سے مکھی پھندوں میں آ کر مر جاتی ہے۔ زہر آلود دوائی(Methyl euginol)ہر دس دن بعد تبدیل کر دینی چاہئے تاکہ مکھیاں بر وقت مرتی جائیں ۔(Pic-10,11 & 12)
 

جڑی بوٹیوں کی روک تھام

بار آوری
امرود کے پودے سال میں دو مرتبہ پھل دیتے ہیں۔ گرمیوں کا پھل مکھی کے حملے کی وجہ سے زیادہ تر ضائع ہو جاتا ہے اور جو بچتا ہے وہ زیادہ دیر تک نامساعدموسم کی وجہ سے محفوظ نہیں رکھا جا سکتا اس لئے سفارش کی جاتی ہے کہ گرمیوں کی فصل کو کم کر کے سردیوں کی بھر پور فصل حاصل کی جائے۔ اس طرح باغبان اور صارفین دونوں کو فائدہ ہوتا ہے جہاں کاشتکار کو زیادہ آمدن ہوتی ہے وہاں صارفین کو اچھا اور تندرست پھل زیادہ عرصہ کے لئے (نومبر سے مارچ) دستیاب ہوتا ہے۔ کاشتکار اور ٹھیکیدار موسم گرما کی فصل ختم کرنے یا جھاڑنے کے لئے پھول اور پھل بنتے ہی چھڑیوں اور درانتی کی مدد سے پتوں سمیت جھاڑ دیتے ہیں جس سے نرم ٹہنیاں بھی زخمی ہو جاتی ہیںیا ایک خاص وقت کے لئے (مئی، جون، جولائی) باغات کی آبپاشی روک لیتے ہیں یہ تمام امور پودوں کی صحت اور درازی عمر کے لئے

انتہائی نقصان دہ ہیں۔ یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ پتوں کی عدم موجودگی میں پودے میں خوراک بنانے کا عمل رک جاتا ہے اور پودے کمزور ہو جاتے ہیں۔ نیز پودوں کے اندر خلیوں کا درجہ حرارت بھی بڑھ جاتا ہے۔ کمزور پودوں پر کیڑ ے، بیماریاں اور دیگر جراثیم با آسانی غالب آ جاتے ہیں اور پودے آہستہ آہستہ سوکھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ گرمیوں کے پھل کو بے ضرر طریقے سے ختم کیا جائے ۔ اس لئے موسم گرما کے پھل کو ہاتھ یا قینچی سے توڑے جائیں یا پھر نفتھالین ایسٹک ایسڈ(NAA) بحساب 150ppmیا یوریا کے 10فیصد محلول کا سپرے کریں۔ اس طرح پودے کی صحت اور اس کی پیداواری صلاحیت کو زیادہ عرصہ تک برقرار رکھا جا سکتا ہے۔علاوہ ازیں کیڑوں اور بیماریوں سے بھی محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ 
شاخ تراشی
عام طور پر یہی تصور کیا جاتا ہے کہ امرود کے پودے کو کانٹ چھانٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ چھوٹے پودوں کا ڈھانچہ بہتر اور مضبوط بنانے کے لئے اوائل عمری میں شاخ تراشی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بڑے پودوں میں جن لمبی شاخوں پر پھل ہوتا ہے وہ بوجھ کی وجہ سے زیادہ نیچے جھک جاتی ہیں یا ٹو ٹ جاتی ہیں۔ ان کے سرے کاٹ دینے چاہئیں۔ اس کے علاوہ تنے کے نچلے حصے سے چھوٹی چھوٹی شاخیں پھوٹتی ہیں ان کو بھی کاٹتے رہنا چاہئے۔ اوائل عمری میں پودے پر کافی پھول آتے ہیں اورشاخیں جھک جاتی ہیں اور بعض اوقات ٹوٹ بھی جاتی ہیں۔ اس حالت میں پھولوں کو کم کر دینا چاہئے۔ بڑی عمر کے پودوں سے اچھی قسم کا پھل حاصل کرنے کے لئے کچھ پھل توڑ کر چھدرا کر دینا چاہئے۔ بہتر پیداوار لینے کے لیے ہر سال اپریل میں بیمار، سوکھی ہوئی اور غیر ضروری شاخیں کاٹی جائیں۔شاخ تراشی 
کے بعدسفارش کردہ پھپھوندی کش زہر کاسپرے کریں۔
پودوں کو کورے سے بچانا
پودے کے نرم و نازک حصوں پر سردی کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔سخت سردی اور کہر سے امرود کے چھوٹے پودے سوکھ جاتے ہیں جبکہ بڑے پودوں کے مختلف حصے مثلاً چشمے، پھول، شاخیں اور تنا بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ نومبر کے آخر سے لیکر فروری کے آخر تک کورا پڑنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ سخت سردی سے نقصان کو کم کرنے کے لئے نرسری کو سرکنڈے کے چھپر سے ڈھانپا جائے اور چھپر اس طرح ڈالے جائیں کہ پودوں کو سورج کی روشنی پہنچتی رہے یا کیاریوں کی وٹوں پر جنتر اگایا جائے یا پودوں کے گرد شاخیں گاڑ کر ڈھانپ دیا جائے۔ کُلیاں بنانے کی صورت میں مشرق کی جانب کا کچھ حصہ کھلا رکھا جائے۔ پودوں کے تنے کے گرد بوری یا پرالی لپیٹ دیں۔ کورے کی متوقع راتوں میں آبپاشی کی جائے۔ باغ میں مختلف جگہوں پر گڑھے کھود کر ان میں پتے ، گھاس پھوس، کوڑا کرکٹ یا ناکارہ توڑی وغیرہ جلا کر دھواں کرنے سے بھی کورے کا اثر کم کیا جا سکتا ہے۔ 

آبپاشی

آبپاشی
آبپاشی کا انحصار علاقہ کی آب و ہوا اور زمین کی خاصیت پر ہے۔ چھوٹے پودو ں کو سارا سال کم وقفوں سے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بڑے پودوں کو خاص طور پر جب پھل کا سائز بڑھ رہا ہو زیادہ مقدار میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ امرود کے پودوں کی آبپاشی کے لئے ماہانہ گوشوارہ درج ذیل ہے۔ 

اپریل تا ستمبر 8 سے 12 دن کا وقفہ اکتوبر تا نومبر 15 سے 20 دن کا وقفہ
دسمبر تا جنوری 20 سے 25 دن کا وقفہ فروری  تا مارچ 15 سے 20 دن کا وقفہ


کورے کے متوقع دنوں میں کورے کے اثرات کو کم کرنے کے لئے آبپاشی کا وقفہ کم کرنا چاہیے۔ موسم برسات میں ضرورت کے مطابق آبپاشی کا وقفہ بڑھایا جا سکتا ہے۔

 

کھادیں

کھاد وں کا استعمال
کیمیائی اور دیسی کھاد کی طلب پودے کی عمر، قسم، زمینی زرخیزی ، آب و ہوا اور انتظامی امور کے حساب سے بدلتی رہتی ہے۔امرود عام پھل دار پودوں کی نسبت فروری، مارچ کی بجائے شروع اپریل میں نئی پھوٹ اور پھول نکالتا ہے۔ موسم سرما کا پھل لینے کے لئے گوبر کی کھاد اگست ، ستمبر میں ، فاسفورس کی کھاد اگست میں، پوٹاش ستمبر، اکتوبر جبکہ نائٹروجن کی پہلی خوراک ستمبر اور دوسری خوراک نومبر میں ڈالنی چاہئے۔ درج ذیل گوشوارے میں کھادوں کے متعلق تفصیل دی گئی ہے۔ 

پودے کی عمر(سال) نائٹروجن کھاد(گرام فی پودا) فاسفورس کھاد(گرام فی پودا) پوٹاش کھاد(گرام فی پودا) گوبر کی کھاد(کلوگرام فی پودا)
1 تا 3 100 تا 300 100 تا 300 100 10 تا 20
4 تا 6 300 تا 600 300 تا 500 200 تا 300 25 تا 40
7 تا 10 750 تا 1000 500 300 40 تا 50
10 سال سے زائد 1000 500 تا 700 400 تا 500 50


نوٹ : اگر کہیں عناصر صغیرہ کی کمی ظاہر ہو تو 100 گرام زنک سلفیٹ،100گر ا م میگنیشیمسلفیٹ ، 50گرام بورک ایسڈ(18%) اور 150گرام فیرس سلفیٹ مناسب پانی کی مقدار میں محلول بنائیں اور چھان لیں پھر ان سب کو 100لٹر پانی میں حل کر کے 15دن کے وقفے سے 2سپرے کریں۔ 

 

 

 

 

 

کٹائی

برداشت و پیداوار
امرود کے پودے پر سال میں دو مرتبہ پھل آتا ہے۔ ایک فصل موسم گرما (جولائی، اگست) اور دوسری موسم سرما (جنوری، فروری) میں حاصل ہوتی ہے۔ جب پھل پک جاتا ہے تو وہ چمکدار سرخ یا سفید رنگ کا ہوتا ہے اور اس میں خاص قسم کی خوشبو پیدا ہو جاتی ہے۔ پھل کو درختوں سے حفاظت کے ساتھ پھل توڑنے والی ٹوکریوں میں توڑا جاتا ہے تاکہ نیچے گر کر زخمی نہ ہو۔ 
امرود کا پودا تقریباً پانچ تا چھ سال کے بعدپھل دینا شروع کر تا ہے۔ اس کی پیداوارکا انحصار آب وہوا،زمین اور اس کی اقسام پر ہوتا ہے۔ اس کی اوسط پیداوار80سے100 من فی ایکڑ ہے۔ 

ذخائر

Crop Calendar