دھان /چاول

خوراک کی فراہمی کے ساتھ ساتھ چاول کی فصل ہمارے ملک میں زرِ مبادلہ کمانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان دنیا میں چاول برآمد کرنے والے ممالک میں اہم مقام رکھتا ہے۔

فصل کے بارے

پیداواری منصوبہ برائے دھان 2021-22

دھان ایک اہم غذائی فصل ہے۔ چاول دنیا کے بیشترممالک میں لوگوں کی خوراک کا اہم حصہ ہے۔ صو بہ پنجاب میں دھان کے مرکزی علاقہ میں پیدا ہونے والا چاو ل دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں چاول لوگوں کی مرغوب غذا ہے جومختلف ڈشزکے طور پر کھایا جاتا ہے اور شادی بیا ہ دیگر تقریبات میں فہرست طعام کا لازمی جز ہے۔ یہاں پیدا ہونے والا چاول ملکی ضروریات پورا کرنے کے ساتھ ساتھ زرمبادلہ کمانے میں بھی اہم کردار ادا کرتاہے۔ پاکستان کو چاول برآمد کرنے والے ممالک میں اہم مقام حاصل ہے۔ دھان کی فصل کی باقیات کئی صنعتوں کے لئے خام مال مہیا کرتی یں۔دھان کی پرالی مویشیوں کے لئے چارے کے طور  پراستعمال ہوتی ہے۔چاول کا چھلکا (پھک) کاغذ اور گتہ سازی کی فیکٹری میں استعمال ہونے کے علاوہ بطور ایندھن بھی استعمال ہوتا ہے۔چاول کا آٹا بیکری کی مصنوعات اور مٹھائیاں بنانے میں استعمال ہوتا ہے اورملک کے کچھ حصوں میں اس سے روٹی بھی بنائی جاتی ہے۔ چاول کے اوپر سے اترنے والی بھوسی یعنی (Rice Bran) سے اعلیٰ معیار اور منفرد خصوصیات کا حامل تیل بھی نکالا جا تا ہے۔ علاوہ ازیں چاول سے بے شماردیگراشیاء بنائی جاتی ہیں۔

پنجاب میں گذشتہ پانچ سالوں میں دھان کا زیر کاشت رقبہ،کل پیداوار اور فی ایکڑ اوسط پیداوارکی تفصیلات گوشوارہ نمبر 1میں دی گئی ہیں۔

گوشوارہ نمبر1:     (الف)  ر قبہ ہزار ہیکٹر(ہزار ایکڑ)  

باسمتی اری دیگر میزان
سال ہزار ہیکٹر ہزارایکڑ ہزار ہیکٹر ہزارایکڑ ہزار ہیکٹر ہزارایکڑ ہزار ہیکٹر ہزارایکڑ 
2016-17 1352.84 3343 145.28 359 238.36 589 1736.48 4291
2017-18 1416.37 3500 134.76 333 289.75 716 1840.88 4549
2018-19 1473.03 3640 133.54 330 297.43 735 1904.00 4705
2019-20 1662.01 4107 91.05 225 275.99 682 2029.01 5014

2020-21

(دوسرا تخمینہ)
 

1871.64 4625 141.64 330 381.2 942 2394.5 5917

(ب)  پیداوار ہزار میٹرک ٹن

سال باسمتی اری دیگر میزان
2016-17 2524.39 391.79 558.82 3475.00
2017-18 2816.56 362.52 718.92 3898.00
2018-19 2949.17 351.06 678.77 3979.00
2019-20 3243.99 232.54 667.19 4143.72

2020-21

(دوسرا تخمینہ)
 
4014.18 366.11 921.08 5301.43

(ج)  اوسط پیداوارچاول کلوگرام فی ہیکٹ (من فی ایکڑ)

باسمتی اری دیگر میزان
سال  کلوگرام فی ہیکٹر
 
 من فی ایکڑ
 
 کلوگرام فی ہیکٹر
 
 من فی ایکڑ
 
 کلوگرام فی ہیکٹر
 
 من فی ایکڑ
 
کلوگرام فی ہیکٹر  من فی ایکڑ
2016-17 1866 20.23 2697 29.24 2345 25.42 2001 21.70
2017-18 1989 21.56 2690 29.17 2481 26.90 2118 22.96
2018-19 2002 21.71 2629 28.50 2282 24.74 2090 22.66
2019-20 1952 21.16 2554 27.69 2417 26.21 2042 22.14

2020-21

(دوسرا تخمینہ)
2144 23.25 2285 2803 2416 26.20 2214 24.01

نوٹ:  مندرجہ  بالا گوشوارہ  1 (ب اور ج) میں جو پیداوار دیکھائی گئی ہے یہ چاول کی پیداوار ہے دھان کی پیداوار جاننے  کے لئے  چاول کی دی گئی مقدار کو  0.6پر تقسیم کریں۔

2019-20 میں رقبہ اور پیداوار میں اضافہ کی وجہ

  • کپاس اور گنے کے رقبہ کی دھان کی طرف منتقلی۔
  • رقبہ میں اضافہ کی وجہ سے پیداوار میں اضافہ ہوا۔

دھان کی بذریعہ بیج براہ راست کاشت

اہمیت

روایتی طور پرہما رے ملک میں دھا ن کی کا شت بذریعہ منتقلی لاب کی جا تی ہے۔ترقی پسند کا شت کا ر اس طریقہ سے دھان کی اچھی پیدا وا ر حا صل کر رہے ہیں۔لیکن  وقت  کے ساتھ ساتھ افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے پنیری کے ذریعے کاشت مہنگی ہو رہی ہے اورپو دو ں کی سفارش کردہ تعدا د بھی حاصل نہیں ہوتی۔بیج سے برا ہ را ست کا شت  کے طریقہ کو بروئے کار لا کر  ان مسائل پر قابو پا یا جا سکتا ہے۔اس طرح پودو ں کی  فی ایکڑ سفارش کردہ تعدا د پو ری کی جا سکتی ہے اور  کام کی رفتار کو بھی بڑھایا جا سکتا ہے یعنی رو ا یتی کا شت کی نسبت تھو ڑے وقت میں زیا دہ رقبہ کا شت کیا جا سکتا ہے اور بعض صورتوں میں پا نی کی بھی بچت کی جا سکتی ہے۔ دھان کی برداشت کے بعد زمین آ سا نی سے تیا ر ہو جا تی ہے اوربعد میں آنے والی ربیع کی فصلات کی کاشت بر وقت ہو سکتی ہے۔تا ہم دھان کی کاشت کی اس ٹیکنالوجی میں بیج کا اگاؤ  اور جڑی بوٹیوں کا انسداد اہم عوامل ہیں۔ کاشتکار بھائیوں کو چاہئیے کہ اس طریقہ کاشت کو اپنانے سے پہلے ان عوامل سے مکمل آگاہی حاصل کر لیں۔

بیج

منظورشدہ اقسام، شرح بیج، پنیری کا وقت کاشت اور منتقلی

 گوشوارہ نمبر2:

نمبرشمار اقسام (شرح بیج کلوگرام فی ایکڑ) کدو کا طریقہ (شرح بیج کلوگرام فی ایکڑ) خشک طریقہ (شرح بیج کلوگرام فی ایکڑ) راب کا طریقہ پنیری کا وقت کاشت پنیری کا  وقت منتقلی
1

موٹی اقسام

اری6، کے ایس282، کے ایس کے 133، نیاب اری9،نیاب 2013،کے ایس کے434اور نبجی  جی ایس آر6-

6 تا  7 8 تا 10 12 تا 15 20 مئی تا 7جون 20جون تا 7جولائی
2

  باسمتی اقسام

پی کے2021 ایرومیٹکنبجی باسمتی 2020،سپر گولڈ،سپر باسمتی 2019، سپرباسمتی،باسمتی515،چناب باسمتی،  پنجاب باسمتی، پی کے1121 ایرومیٹک، نیاب باسمتی 2016  اور نور باسمتی

4.5 تا  5 6 تا 7 10 تا 12 7  تا 25جون 7 تا 25جولائی
3

باسمتی اقسام

شاہین باسمتی

4٫5 تا 5 6 تا 7 10تا12 15جون تا  30جون 15جولائی تا آخر جولائی 
4

باسمتی قسم: کسان باسمتی

4.5 تا 5 6 تا 7 10تا12 15 تا 30جون 10   تا25جولائی
5 غیر باسمتی فائن قسم: پی کے386 4.5 تا 5 6 تا 7 10تا12 7  تا 25جون 7  تا 25جولائی
6 باسمتی ہائبرڈقسم: کے۔ایس۔کے111 ایچ 4.5 تا 5 - - 7  تا 25جون 7  تا 25جولائی
7  موٹیہائبرڈاقسام:سفارش کردہ  ہائبرڈ اقسام 6 - - 20مئی تا15جون پنیری کی عمر 25تا30دن

نوٹ:

  • مندرجہ بالا شرح بیج80فیصد یا زیادہ اُگاؤ والے بیج کے لئے ہے اگر اُگاؤ کم ہو تو اسی نسبت سے بیج کی مقدار میں اضافہ کرلیں۔
  • کسان باسمتی کے لئے بوقت منتقلی پنیری کی عمر25دن سے زیادہ نہیں ہونی چاہیئے۔
  • نئی متعارف کی جانے والی اقسام کا بیج اگلے سال میسر ہوگا۔

غیر منظور شدہ اقسام کاشت نہ کریں

غیر منظور شدہ  اور ممنوعہ اقسام ہرگز کاشت نہ کریں کیونکہ ان کے چاول کا معیار ناقص ہے  اوران کی ملاوٹ کی وجہ سے چاول کا معیار متاثر ہوتا ہے اورعالمی منڈی میں کم قیمت پر فروخت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی چاول کی ساکھ پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔

اگیتی کاشت کی ممانعت 

پنجاب زرعی پیسٹ آرڈینینس (Punjab Agriculture Pest Ordinance)1959 کے تحت20مئی سے پہلے دھان کی پنیری یا فصل کی کاشت ممنوع ہے کیونکہ تنے کی سنڈیاں موسم سرما دھان کے مڈھوں میں سرمائی نیند سو کر گزارتی ہیں۔ روشنی کے پھندوں سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق تنے کی سنڈیوں کے پروانے زیادہ تر مارچ کے آخر اوراپریل کے شروع میں نکلتے ہیں۔اگر اس دوران دھان کی پنیری کاشت کی گئی ہو تو پروانے ان پر انڈے دے کر اپنی نسل کا آغاز کر دیتے ہیں۔لہٰذا دھان کی پنیری20مئی سے پہلے کاشت نہ کریں۔

زرعی مداخل کی مقدار کا صحیح تعین کرنا

اس کتابچہ میں زرعی مداخل سے متعلقہ دی گئی مختلف سفارشات فی ایکڑ یعنی8کنال  کے لئے ہیں۔ کاشتکار بھائیوں سے گذارش ہے کہ بیج،کھاد اورزرعی زہروں وغیرہ کی مقدار کا صحیح تعین کرنے کے لئے  اپنے کھیت کی پیمائش کو ضرور مد نظر رکھیں۔ 

بیج کے اگاٰٰٰ ٰ ؤ کی شرح معلوم کرنا

بیج صاف ستھرا، تندرست اور توانا ہونا چاہئیے۔ عام اقسام کے لئے بیج کے اُگاؤ کی شرح 80فیصد جبکہ ہائبرڈ اقسام کے لئے75فیصد سے کم نہیں ہونی چاہئیے۔ اُگاؤ کی شرح معلوم کرنے کے لئے بیج کی لاٹ سے کم از کم چار سو بیج لیں اور ان کو چوبیس گھنٹوں کے لئے پانی میں بھگو دیں۔پھر انہیں گیلے کپڑے میں لپیٹ کر سایہ دار جگہ پہ36تا 48گھنٹے کے لئے ر کھ دیں اور کپڑے کو گیلا رکھیں۔ اس دوران بیج انگوری مارلے گا۔اب انگوری مارے ہوئے بیجوں کو گن کر فیصداگاؤ معلوم کرلیں اور شرح بیج اس کے مطابق رکھیں۔

بیج کی دستیابی

دھان کی فصل سے بھرپور پیداوار حاصل کرنے کے لئے منظور شدہ اقسام کا تصدیق شدہ بیج استعمال کریں۔ یہ بیج پنجاب سیڈ کارپوریشن کے قائم کردہ مراکز و مقرر کردہ ڈیلروں اور رجسٹرڈپرائیویٹ کمپنیوں سے مل سکتا ہے۔ اسکے علاوہ دھان کی مختلف اقسام کا بیج محدود مقدار میں تحقیقاتی ادارہ برائے چاول، کالا شاہ کاکو سے بھی حاصل کیاجا سکتا ہے۔ پنجاب سیڈ کارپوریشن کے پاس اس سال دھان کی مختلف اقسام کا بیج مندرجہ ذیل مقدار میں دستیاب ہے۔

گوشوارہ نمبر3: پنجاب سیڈ کارپوریشن کے پاس دھان کی مختلف منظور شدہ اقسام کے دستیاب بیج کی تفصیل

 باسمتی اقسام
 
 مقدار بیج (40کلوگرام والا تھیلا) موٹی  اقسام مقدار بیج (40کلوگرام والا تھیلا)
سپر باسمتی
 
12832 کے ایس282- 2152
پی کے1121- ایرومیٹک
 
23510 نیاب اری9- 8486
کسان باسمتی
 
5114 ری6- 1344
پی کے- 386(غیرباسمتی فائن) 1810 کے ایس کے133- 8259
باسمتی-  515  11350    
 سپرباسمتی 19 46    
سپر گولڈ 19 46    
میزان 54708 میزان 20241
کل میزان 74949

 بیج کو زہر لگا نا

دھان کی فصل کو بکائنی اور پتوں کے بھورے دھبے جیسی بیماریوں سے بچانے کے لئے  بیج کو کاشت سے پہلے سفارش کردہ پھپھوندی کش زہر ضرور لگائیں۔ اگر کدو کے طریقہ سے پنیری کاشت کرنا ہو تو بیج کی مقدار سے سوا گنا زیادہ پانی لیں اور اس میں زہر کی سفارش کردہ مقدارحل کریں اور بیج کو اس محلول میں 24گھنٹے کے لیے بھگو دیں اس کے بعد بیج کو نکال کر سایہ دار جگہ پر رکھ کر دبو دیں اور چھٹے کے لئے تیار کرلیں۔ اگر خشک طریقہ سے پنیری کاشت کرنا ہو تو کاشت سے دو ہفتے قبل خشک بیج کو زہرلگالیں۔

اپنا بیج پیدا کرنا

اچھی پیداوار حاصل کرنے کے لئے خالص، صحت مند اور بیماریوں سے محفوظ بیج کا استعمال انتہائی ضروری ہے۔ دھان کا تصدیق شدہ بیج پیدا کرنے کیلئے پنجاب میں بہت سے ادارے کام کر رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی صوبے کی ضرورت کا تقریباً40فیصد بیج پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا  تصدیق شدہ بیج کی عدم دستیابی کی صورت میں کاشتکاروں کے لئے بہتر ہے کہ وہ  ناقص اور ناخالص بیج استعمال کرنے کی بجائے خود اپنابیج پیدا کریں۔ اس کیلئے درج ذیل ہدایات کو مد نظر رکھیں۔

  • بیج والی فصل سے غیر اقسام اور بیماریوں اور کیڑوں سے متاثر ہ پودے تلف کردیں۔
  • ترجیحی طور پر بیج والی فصل کی کٹائی اور پھنڈائی ہاتھ سے کریں۔
  • پھنڈائی کرتے وقت پہلی پھنڈ والا بیج رکھیں کیونکہ یہ صحت مند اور موٹا ہوتا ہے۔
  • بیج والی فصل کی اگر مشینی برداشت کرنی ہو تو رائس ہارویسٹر سے برداشت کریں اور صحت مند اور موٹابیج رکھیں ٹوٹا ہوا،کمزور اور غیر پختہ بیج ہر گز نہ رکھیں۔
  • پھنڈائی اور ستھرائی کے بعد بیج کو اچھی طرح خشک کریں  اور سٹور کرنے کے لئے اس میں نمی کا تناسب 12فیصدسے کم ہو۔
  • بیج سٹور کرنے کے لئے پٹ سن کی بوریاں استعمال کریں۔

کاشت

موزوں زمین

دھا ن کی فصل ریتلی کے سوا  ہرقسم کی زمین میں کاشت کی جاسکتی ہے اور شور زدہ اور کلر اٹھی زمینوں میں بھی مناسب دیکھ بھال کرکے کاشت کی جا سکتی ہے۔

پنیری کا طریقہ کاشت  

(1)    کدو کا طریقہ        (2)    خشک طریقہ    (3)    را ب  کا طریقہ

 کدو کا طریقہ

الف۔    بیج کی تیاری

  • بیج کی مقدار سے سوا گنا زیادہ پانی میں سفارش کردہ پھپھوندی کش زہر ڈالیں اوراس میں بیج  کو 24گھنٹے کے لئے بھگو دیں۔ اس کے  بعداسے سایہ دار جگہ میں فرش پر انڈیل دیں۔ پھراس کو 15تا20 کلو گرام کی ڈھیریوں میں رکھیں اور گیلی بوریوں سے ڈھانپ دیں یعنی دبو دے دیں۔
  • دن میں دو تاتین مرتبہ بیج کوہلائیں اور اس پر پانی چھڑکتے رہیں تاکہ یہ خشک نہ ہو جائے۔ 36تا 48گھنٹے میں بیج  انگوری مارلے گا۔
  • اگر تصدیق شدہ بیج کی عدم دستیابی کی وجہ سے گھر کا بیج استعمال کرنا ہو تو مندرجہ بالا مرحلے سے پہلے20لٹر پانی میں 500گرام خوردنی نمک ڈال کر حل کریں اور بیج کو اس میں بھگودیں۔ ناقص اور ہلکا بیج اوپر آ جائے گا۔اسے نتھار کر الگ کر لیں۔بعد ازاں بیج کو پانی سے دھوکر اچھی طرح صاف کرلیں۔

 ب۔     زمین کی تیاری و بیج کا چھٹہ

  •  ایک تا دومرتبہ خشک ہل چلائیں اور کھیت کو پانی لگا دیں
  •   پانی میں دوہراہل چلائیں اور سہاگہ دیں یعنی کدو کر لیں۔
  • کھیت تیار کر کے اس کو دس دس مرلے کے چھوٹے کیاروں میں تقسیم کر دیں۔
  • جڑی بوٹیوں کے انسداد کے لیے اس ضمن میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق قبل از اگاؤ اثر کرنے وا لی جڑ ی بوٹی ما زہر کا استعمال کریں۔
  • اب انگوری مارے ہوئے بیج کا چھٹہ دیں۔
  • یاد رہے کہ اری اقسام کا ایک کلوگرام اور باسمتی کا 500سے 750 گرام بیج فی مر لہ استعمال کریں۔
  • چھٹہ دیتے وقت کھیت میں ایک تا ڈیڑھ انچ پانی کھڑا ہونا چاہئے۔بیج کا چھٹہ شام کے وقت دیں اور اگلی شام کھیت سے پانی نکال دیں او رآنے والی صبح پھرپانی ڈال دیں کیونکہ گرمی کی وجہ سے پانی گرم ہونے پربیج گلنے کا اندیشہ ہے۔ ایک ہفتہ بعد یہ عمل بند کردیں۔پنیری کا قد بڑھنے پر پانی کی گہرائی بڑھا دیں لیکن یہ تین انچ سے زیادہ نہ ہو۔ 
  • اس طریقہ سے 25 تا 30دن میں پنیری تیار ہو جائے گی۔ اگر پنیری کمزور ہو تو یوریا بحساب ایک پاؤ (250گرام) یا کیلثیم امونیم نائٹریٹ بحساب 400 گرام فی مرلہ  چھٹہ دیں۔ کھاد کا چھٹہ لاب کی منتقلی سے تقریباً دس دن پہلے کریں۔
  • اگر لاب لگانے کا رقبہ زیادہ ہو تو پنیری ہفتہ دس دن کے وقفہ سے قسطوں میں کاشت کریں تاکہ منتقلی کے وقت پینری کی عمر 25 تا5 دن سے زیادہ نہ ہو۔
  • یاد رہے کہ کسان باسمتی کی پنیری  کی عمربوقت منتقلی 25دن سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔

2- خشک طریقہ

  • یہ طریقہ ان علاقوں کے لئے ہے جہاں زمین میرا ہے اور کھیت میں پانی کھڑا نہیں ہوسکتا۔
  • اس کے لئے کھیت کی راؤنی کریں وتر آنے پر دوہرا ہل اور سہاگہ دے دیں۔
  • پنیری کا شت کرنے سے قبل اس میں دوہرا ہل چلا کر سہاگہ دیں اور خشک بیج  اری اقسام بحساب ڈیڑھ کلوگرام فی مرلہ اور باسمتی اقسام بحساب تین پاؤ(750گرام تاایک کلو گرام)فی مر لہ چھٹہ دیں۔ اس پر روڑی، توڑی، پھک یا پرالی کی ایک انچ موٹی تہہ بکھیر دیں۔ اس کے بعد ہلکا پانی لگا دیں جس نکے سے پانی دیں اس کے آگے سوکھی گھاس وغیرہ رکھ دیں تاکہ پانی کا زور کم ہو اور بیج بہہ نہ جائے۔ توڑی یا پرالی کوچند دن بعد اٹھا دیں تاکہ پنیری پر سورج کی روشنی پڑ سکے۔ اس طریقہ سے پنیری 35 تا 40دن میں تیار ہو جاتی ہے۔
  • جڑی بوٹیوں کے انسد اد کیلئے بیج  اگنے کے پندرہ دن بعد محکمہ زراعت توسیع کے عملہ کے مشورہ سے مناسب زہرسپرے کریں۔

راب کا طریقہ

  • یہ طریقہ ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے اضلاع میں رائج ہے جہاں زمین عموماً سخت ہوتی ہے۔
  • ابتدائی تیاری کے بعدکھیت کو ہموار کر کے گوبر، پھک یا پرالی کی دو انچ موٹی تہہ ڈالیں اور صبح یا دوپہر کے وقت آگ لگا دیں - راکھ ٹھنڈی ہونے پر اس کو گوڈی کر کے زمین میں ملا دیں۔
  • بعد ازاں اری اقسام بحساب 2کلوگرام اور باسمتی اقسام بحساب 1کلوگرام خشک بیج فی مرلہ چھٹہ دیں اور ہلکا سا پانی لگا دیں۔ اس طریقہ سے پنیری 35 تا 40دن میں تیار ہو جاتی ہے۔

 پنیری میں جڑی بوٹیوں کا انسداد

دھان کی پنیری میں جڑی بوٹی کش زہروں کا استعمال کامیابی سے کیا جاسکتاہے۔کدو کے طریقہ میں کدو  تیار کرنے کے بعدسفارش کردہ زہر کی مجوزہ مقدار شیکر بوتل کے ساتھ کھیت میں بکھیر دیں۔زہرڈالنے کے 36  گھنٹے بعد تک  کھیت میں پانی کھڑا رہنے دیں۔ اس کے بعد اسے نکال کر تازہ پانی ڈال دیں۔ یہ عمل دو تا تین مرتبہ دہرائیں۔اس کے بعد کھیت میں ایک تا ڈیڑھ انچ پانی ڈال کر اوپر بیان کردہ طریقہ کار کے مطابق انگوری مارے ہوئے بیج کا چھٹہ دے دیں۔اس سے انشااللہ جڑی بوٹیوں کا تدارک  90فیصد سے زیادہ ہوگا اور لاب کا اگاؤ بھی متاثر نہیں ہوگا۔اگر کسی وجہ سے یہ عمل نہ ہو سکے  تو بعد از اُگاؤ اثر کرنے والی سفارش کردہ جڑی بوٹی مارزہریں استعمال کریں۔ان کے سپرے کے وقت کھیت میں پانی کھڑانہیں ہونا چاہیے۔ زہروں کی مقدار کا تعین کرتے وقت اندازے سے ہرگز کام نہ لیں کیونکہ اس وقت تھوڑی سی غلطی یا بے احتیاطی سے کاشتہ لاب کی نشوونمارک سکتی ہے یا لاب بالکل ختم بھی ہوسکتی ہے۔ اس لیے زہر کی سفارش کردہ مقدار، طریقہ استعمال لیبل پر لکھی ہوئی ہدایات اورمحکمہ زراعت کی سفارشات کے مطابق استعمال کریں۔

پنیری میں نقصان دہ کیڑوں کا انسداد

  •  گذشتہ دھان کی فصل کے مڈھ ہر صورت میں 28فروری سے پہلے تلف کریں۔
  • پنیری20مئی سے پہلے ہرگز کاشت نہ کریں۔
  • دھان کا ٹوکہ بعض اوقات پنیری پر شدید حملہ کرتا ہے جس کی وجہ سے بعض دفعہ پنیری دوبارہ کاشت کرنا پڑجاتی ہے۔ اس کے تدارک کے لئے ضروری ہے کہ کھیت کی وٹوں اورکھالوں کی صفائی کی جائے
  • فروری مارچ میں کھیت کی وٹوں پر سفارش کردہ زہر کا دھوڑ ا  یاسپرے کریں تاکہ یہ انڈوں سے نکلتے ہی مر جائیں اور پنیری تک نہ پہنچ سکیں۔
  • اگر پنیری پر ٹوکے کا حملہ معاشی نقصان کی حد(2ٹوکے فی نیٹ) تک پہنچ جائے توپنیری اوراس کے ارد گرد کی وٹوں پرسفارش کردہ زہر کا دھوڑا/سپرے کریں۔تنے کی سنڈیوں کاحملہ جب معاشی نقصان کی حد یعنی 0.5فیصدسوک تک پہنچ جائے تو سفارش کردہ دانے دار زہر ڈالیں
  • خیال رہے کہ دھان کی پنیری پر زہر پاشی معائنہ کے بغیر نہ کریں۔

پنیری کی منتقلی کے لیے کھیت کی تیاری

جن علاقوں میں پانی کھڑا نہیں ہوتا وہاں زمین کی تیاری خشک طریقہ سے کریں۔ کدو کرنے کا بڑا مقصد جڑی بوٹیوں کی تلفی اورفصل کے لئے پانی کی ضرورت کو کم کرنا ہے۔

  • اگر ایک مرتبہ خشک ہل چلالیا جائے تو زمین جلد اور اچھی تیار ہو جاتی ہے۔
  • چاول کی بہتر کوالٹی اور اچھی پیداوار کیلئے کھیت میں پنیری منتقل کرنے سے دس تا پندرہ دن پہلے پانی کھڑا رکھیں اور پھر کدوکریں۔ پانی کی کمی کی صورتِ میں 7 دن تک اور شدید کمی کی صورت میں کم ازکم تین دن تک پانی کھڑا رکھیں اور ہل و سہاگہ چلا کرکھیت کواچھی طرح تیار کر یں اور اگلے دن پنیری منتقل کریں۔آخری سہاگے کے نیچے کھاد کی سفارش کردہ مقدار بھی ڈال دیں۔
  • کلر سے پاک وہ علاقے جہاں بھاری چکنی زمین اور وافر پانی دستیاب ہووہاں کدو کرنے سے پہلے ایک دفعہ مٹی پلٹنے والا ہل (راجہ ہل) چلا کر کدو کر یں۔ اس سے دھان کی پیداوار میں خاطرخواہ اضافہ ہوتا ہے اور بعد میں آنے والی ربیع کی فصلات پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سیم تھور والی زمینوں کی آباد کاری کے دوران راجہ ہل نہ چلائیں۔  
  • کلراٹھی زمینوں میں کدو نہ کریں کیونکہ اس سے نمکیات نیچے نہیں جائیں گے۔

 کدو بذریعہ واٹر ٹائٹ روٹا ویٹر    

روایتی طور پر کدو کی تیاری ہل اور سہاگے کی مدد سے کی جاتی ہے مگر اب اس کے لئے روٹا ویٹر کا استعمال بھی کافی مقبول ہو رہا ہے۔ کاشتکاروں سے گذارش ہے کہ اگر ممکن ہو تواس مقصد کے لئے واٹر ٹائٹ روٹاویٹر استعمال کریں۔یہ روٹا ویٹر خصوصاََکدو کرنے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔اس میں بیرنگ اور دوسرے پرزہ جات کو پانی سے محفوظ رکھنے کے لئے اضافی سیلز کا استعمال کیا گیا ہے۔اس طریقہ سے کدو زیادہ بہتر طور پر تیار ہوتاہے اور روٹا ویٹربھی خراب نہیں ہوتا۔

پنیری کی منتقلی

  • کدو کے طریقہ سے تیار کی ہوئی پنیری 25تا30دن میں جبکہ خشک طریقہ سے کاشت کی ہوئی پنیری 35سے40دن میں منتقلی کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔اگر منتقلی کے وقت پنیری کی عمر 25دن سے کم ہو تو پودے نازک ہونے کی وجہ سے گرمی برداشت نہیں کر سکتے اور مرجاتے ہیں اور اگر پنیری 40دن سے زیادہ عمر کی ہو تو اس کی شاخیں کم بنیں گی۔پنیری اکھاڑنے سے ایک دو روز پہلے اسے پانی لگا دیں تاکہ زمین نرم ہو جائے اور اکھاڑتے وقت پودے نہ ٹوٹیں۔لاب کی منتقلی ڈیڑھ انچ گہرے پانی میں کریں
  • پہلے ہفتے میں پانی کی گہرائی ڈیڑھ انچ رکھیں پھر آہستہ آہستہ تین انچ  تک کر دیں لیکن  اس سے زیادہ نہ کریں ورنہ پودے شاخیں کم بنائیں گے اور پیداوار کم ہو گی۔
  • لاب اکھاڑتے وقت جھُلسے ہوئے، بکائنی یا سنڈی سے متاثرہ پودے تلف کر دیں۔
  • پودوں کا باہمی فاصلہ9انچ رکھیں اور ہر سوراخ  میں 2پودے لگائیں۔ اس طرح فی ایکڑ سوراخوں کی تعداد تقریباً 80000 اورپودوں کی تعداد160000ہوگی۔
  •  اگر کچھ  ناغے رہ جائیں تولا ب کی منتقلی کے بعد10دن تک ان کو پرکرلیں۔

کلراٹھی زمینوں میں دھان کی کاشت کے لئے ضروری گزارشات

  •  کلرکے خلاف قوتِ مدافعت رکھنے والی اقسام مثلاََ نیاب اری 9،کے ایس 282، کے ایس کے 133،پی کے 386، نیاب2013اور شاہین باسمتی کاشت کریں۔
  •  پنیری کلرسے پاک زمین پر تیار کریں۔
  •  منتقلی کے وقت لاب کی عمر 35 تا 45دن ہونی چاہئے۔
  • جس کھیت میں لاب منتقل کرنی ہو اسکی تیاری گہراہل چلاکر شروع کریں لیکن کدوبالکل نہ کریں تاکہ پانی لگانے سے نمکیات کی دھلائی ہوسکے۔
  • لاب منتقل کرنے سے 7 تا 10دن پہلے کھیت میں پانی کھڑا رکھیں۔ سفید کلرکی زیادتی کے باعث دھان کی نشوونما لاب کی منتقلی کے  بعددس دن کے اندراندر متاثرہوتی ہے۔ اس کا حل کھیت میں پانی کی تبدیلی ہے۔ کالے کلرکی زیادتی کے باعث فصل بیس دن کے اندراندر متاثرہونا شروع ہوجاتی ہے۔ زمین کے تجزیہ کی بنیاد پر ایسی زمینوں میں گندھک کا تیزاب استعمال کرنے سے فصل کی نشوونما بحال ہوجاتی ہے۔

دھان کی بذریعہ بیج براہ راست کاشت

طریقہ کاشت اور دیگر کاشتی عوامل

1-زمین کی تیا ری

 اس طریقہ کا شت میں زمین کی اچھی تیا ری بہت اہم ہے خصو صاََزمین کی ہمو ا ری بہت ضروری ہے تاکہ فصل کااگاؤاورپا نی کا انتظا م بہتر طور پر ممکن ہو۔ زمین کی اچھی تیا ری کے لئے مئی کے تیسرے ہفتے میں دو مر تبہ خشک ہل چلا ئیں اور زمین ہمو ار کرنے کے بعد کھیت کو پانی لگادیں۔وتر آنے پر کھیت کو تیا ر کریں۔ دھا ن کی براہ راست کا شت میں اس با ت کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ جس زمین میں پچھلے سال جو قسم کاشت کی گئی ہو (با لخصو ص مو ٹی اقسام جو قدرے پہلے کاشت ہو تی ہیں) وہی قسم دوبا رہ کاشت کی جا ئے کیو نکہ پچھلے سا ل کے گرے ہوئے بیج بھی کافی تعداد میں اگ آتے ہیں۔ایسے کھیت جہا ں کلر گھا س یا جنگلی گھا س(Liptochloa chinensis)وغیرہ زیا دہ ا گتی ہو وہاں دھا ن کی براہ راست کا شت ہرگز نہ کریں۔۔اسی طرح کلرا ٹھی زمین بھی اس طریقہ کاشت کے لئے موزوں نہیں ہے۔

2۔ موزوں اقسام

کسان باسمتی کے سوا تمام منظور شدہ باسمتی اور اری اقسام براہِ راست کاشت کی جا سکتی ہیں۔ 

 3۔شرح بیج

با سمتی وغیر باسمتی فائن اقسام کے لئے  8 تا 10 جبکہ مو ٹی اقسام کے لئے 10 تا 12کلو گرام بیج  فی ایکڑ استعما ل کریں۔  بیج کو کا شت سے پہلے محکمہ زراعت توسیع کے عملہ کے مشورہ سے پھپھو ندی کش زہر ضرور لگائیں۔

 4۔ وقت کا شت

مو ٹی اقسام کے لئے کا شت کا بہترین وقت 20 مئی تا 7 جون اور با ستمی اقسام کے لئے 7  تا25جو ن ہے۔

 5۔طریقہ کا شت

(الف):خشک زمین میں کاشت

(i)بذریعہ ڈرل مشین

خشک تیارشدہ زمین میں  DSR  یعنی ڈائریکٹ سیڈڈ  رائس ڈرل کے ساتھ بوائی کریں۔ قطاروں کا باہمی فاصلہ9انچ  اور بیج کی گہرائی ڈیڑھ انچ سے زیادہ نہ ہو۔بوائی کے دوران بیج گرانے والے پائپوں کامعائنہ کرتے رہیں تاکہ کوئی پور مٹی کے پھنسنے کی وجہ سے بندنہ ہو۔  ہر چکر مکمل کرنے کے بعد ڈرل مشین کو اوپر اٹھا کر اس کا سائیڈ والا پہیہ گھما ئیں اور چیک کریں کہ تمام پائپوں میں سے بیج  زمین پر گر رہا ہے۔ اگر کوئی سوراخ بند ہو تو اس کو باریک چھڑی کی مدد سے کھول دیں۔ اگر کھیت میں کوئی سیاڑ بیج کے بغیر رہ جائے تو اس میں ہاتھ سے بیج گرا کر مٹی کی ہلکی تہہ سے ڈھانپ دیں۔ بوائی کے وقت ڈالی جانے والی فاسفورس اور پوٹاش کی سفارش کردہ کھاد کو بذریعہ ڈرل ڈال سکتے ہیں۔بوائی کے بعد کھیت میں چھوٹے کیارے بنا ئیں اور ہلکاپانی لگا دیں۔

(ii)بذریعہ چھٹہ

اگرDSR ڈرل دستیاب نہ ہوتو بذریعہ چھٹہ بھی براہ راست کاشت کی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے خشک زمین تیار کرنے کے بعد شمالاً جنوباً ہلکا ہل چلائیں اور خیال رکھیں کہ پھالہ زمین میں ایک انچ سے زیادہ گہرانہ جائے۔ بیج کا دوہرا چھٹہ کر کے اسی رخ کا سہاگہ پھیردیں۔بوائی کے وقت ڈالی جانے والی فاسفورس اور پوٹاش والی کھاد کی سفارش کردہ مقدار بھی زمین کی تیاری کے دوران ڈال دیں۔بوائی کے بعد کھیت میں چھوٹے کیارے بنا ئیں اور  ہلکاپانی لگا دیں۔

(ب) وتر زمین میں کا شت

اگر کاشت وتر والی زمین میں کرنا ہو تو زمین تیا ر کرنے کے بعد اوپر دئیے گئے طریقہ کے مطابق بذریعہ DSR ڈرل  بوائی کریں یا چھٹہ کرکے سہاگہ پھیر دیں اور چھوٹے کیارے بنا دیں۔  چند دن بعد جب فصل کا اگاؤ ہو جائے یعنی شگوفے زمین سے باہر نکل آئیں تو کھیت کوہلکا سا پانی لگا دیں۔پھرایک ماہ تک تر وتر کا پانی لگائیں  اور بعد میں وتر کا پانی لگاتے رہیں۔ 

دھان کی مشینی کاشت

ہمارے ملک میں دھان کی فی ایکڑ پیداوار دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی نسبت کم ہے۔ دوسری وجوہات کے علاوہ پودوں کی کم تعداد، متوازن کھادوں کا عدم استعمال اور بیماریوں و کیڑوں کے بروقت انسداد پر کم توجہ ہوناہے۔ سروے کے مطابق کاشتکاروں کے کھیتوں میں پودوں کی تعداد پچاس تا ساٹھ ہزارفی ایکڑ ہوتی ہے جبکہ یہ تعداد اسی ہزار پودے فی ایکڑ ہونی چاہیئے۔ لاب لگانے والے مزدور ایک تو دستیاب نہیں اور دوسرا یہ دھان کے پودوں کی مطلوبہ تعداد پوری نہیں لگاتے۔رائس ٹرانسپلانٹر کے ذریعے کم وقت میں زیادہ رقبہ پر منتقلی لاب کے علاوہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔اس طریقہ کاشت کے  فروغ کے لئے ضروری ہے کہ کاشتکار متعلقہ مشینری کے استعمال، پنیری اُگانے،کھیت میں منتقل کرنے اور کھیت کی مناسب تیاری میں مہارت رکھتے ہوں۔ اڈ یپٹو ریسرچ فارمز اور تحقیقاتی ادارہ برائے دھان کالا شاہ کاکو کے زیر انتظام  اس طریقہ کاشت سے متعلق کامیاب تجربات کیے گئے ہیں۔ مشینی کاشت کی ترویج کے لئے رواں سال سے محکمہ زراعت پنجاب شعبہ توسیع و اڈیپٹو ریسرچ کے زیر اہتمام چلنے والے دھان کی پیداوار بڑھانے کے قومی منصوبہ کے تحت کاشتکار وں کو قرعہ اندازی کے ذریعہ رعایتی نرخوں پر مشینری اور زرعی مداخل کی فراہمی کے علاوہ فنی تربیت بھی دی جائے گی۔

مشینی کاشت کے فوائد

  1. لاب کی بروقت منتقلی
  2. پودوں کی مطلوبہ تعداد کا حصول 
  3. منتقلی کے بعد پودوں کی جلد بڑ ھوتری کا آغار
  4. مزدوروں کی قلت پر قابو 
  5. پیداواری لاگت میں کمی  
  6. فی ایکڑپیداوار میں اضافہ  و جنس کے معیار میں بہتری

مشینی کاشت کے لئے ضروری عوامل

  1. کھیت کابذریعہ لیزر لیولر ہموار ہونا 
  2. پلاسٹک ٹرے میں یا پلاسٹک شیٹ پر لاب کی تیاری
  3. لاب لگاتے وقت پانی کی مقدار کا کم  ہونا  
  4. لاب کی تیاری اور منتقلی بذریعہ مشین کرنے سے متعلق کاشتکارو آپر یٹر کا مکمل تربیت یافتہ  ہونا۔

 پلا سٹک ٹرے میں پنیری اُگانے کا طریقہ

  • ایک ایکڑ دھان کی نرسری کے لئے   100تا  120ٹرے درکار ہوتی ہیں۔ جن کے لئے بیج کی مقدار 8تا10کلو گرام فی ایکڑ ہو گی۔
  • ہمیشہ تصدیق شدہ،بیماریوں سے  پاک بیج استعمال کریں۔بیج کو سفارش کردہ پھپھوندی کش  زہرلگا کر کاشت کریں۔
  • زمین ہموار ہو  اور سطح زمین زیادہ نرم نہ ہو تاکہ سیڈنگ مشین آسانی  کے ساتھ حرکت کر سکے۔
  • ٹرے کے لئے مٹی زرخیز (بھل یا میر ا)  ہو اور اس میں پتھریا روڑ وغیرہ نہ ہوں۔مٹی کو 5ملی میٹر سوراخوں والے چھاننے سے چھان لیں۔
  • بھرنے کے بعد ٹرے ایک سیدھ میں رکھ دیں۔تقریباً ایک مرلہ میں 100ٹرے رکھی جا سکتی ہیں۔ بعد میں پانی لگا دیں لیکن ٹریوں کے اوپر پانی نہ چڑھے اوران کو سوکا بھی نہ لگنے پائے۔پنیری کا قد بڑا ہونے پر پانی کھڑا بھی رکھا جا سکتا ہے۔ 
  • اگر پنیری قد میں چھوٹی یا کمزور نظر آئے تو بوائی کے ہفتہ دس دن بعد ایک تا ڈیڑھ کلو گرام یوریا کھاد فی 100ٹرے  چھٹہ دیں۔ 
  • کیڑے وغیرہ کے حملہ کی صورت میں سفارش کردہ زہر کا استعمال کریں۔
  • بوائی کے 25تا30دن بعدپنیری منتقلی کے قابل ہو جاتی ہے۔ منتقلی سے تقریباََ 12گھنٹے قبل ٹریوں کو پانی سے نکال کر خشک جگہ پر رکھ دیں اور تھوڑا خشک ہونے دیں تاکہ پنیری کی جڑوں پر زیادہ گیلی مٹی ہونے کی صورت میں مشین کی کارکرد گی متاثرنہ ہو۔

منتقلی لاب بذریعہ رائس ٹرانسپلانٹر

  • لاب کی منتقلی شروع کرنے سے پہلے مشین کے ہر حصے کو تیل اور گریس وغیرہ دیں۔
  • مشین سے کوئی زورزبردستی نہ کریں اور انجن آئل کا خاص خیال رکھیں۔ 
  • لاب کی منتقلی کے لئیکھیت کااچھی طرح  ہموار ہونابہت ضروری ہے۔بہتر ہے کہ بذریعہ لیزر لیولرہموار کرلیں۔
  •  منتقلی لاب سے دو دن پہلے کھیت کو اچھی طرح تیار کریں اور کدو کریں۔منتقلی کے وقت کھیت میں پانی کی مقدار ایک انچ سے کم اوریکساں رکھیں۔
  •  لاب لگاتے وقت جب مشین موڑ کاٹ رہی ہو تولاب لگانا بند کر دیں تاکہ مشین کا نقصان نہ ہو۔ خالی جگہ پر مشین کا سیدھا پھیرا  لگائیں۔ 
  • منتقلی کے وقت پنیری کی جڑوں میں مٹی کی تہہ کی موٹائی دو سینٹی میٹر تک بہتر رہتی ہے۔
  • منتقلی لاب کے دوران اگر مشین ناغے چھوڑے تو اسے اچھی طرح چیک کر کے درست کر لیں اور ناغوں کو بذریعہ مزدور پُر کر لیں۔
  • مشینی کاشتہ فصل کی دیگر ضروریات مثلاً کھادیں، زہریں اور پانی کا استعمال  عام فصل کی سفارشات کے مطابق  ہی  رکھیں۔
  • مشین کے ذریعے  لائینوں کا باہمی فاصلہ 12انچ جبکہ  پو دوں کا باہمی فاصلہ  6انچ  برقرار  رکھیں۔تاہم ٹرا نسپلانڑ میں پودے سے پودے کا فا صلہ کم یا زیادہ کرنے کی سہولت موجود ہے۔
  •  پودے ڈیڑھ انچ سے زیا دہ گہرے نہ لگائیں تاکہ یہ اچھی طرح شا خیں بنا سکیں۔

بیماریاں

دھان کی بیماریاں اور ان کا انسداد

دھان کی فصل پرپتوں کے بھورے دھبے، پتوں کا جراثیمی جھلساؤ، دھان کا بھبکا یا بلاسٹ، دھان کی بکائنی اور تنے کی سڑانڈ حملہ آور ہوتی ہیں جن کی علامات اورطریقہ انسداد درج ذیل ہے۔

توں کے بھورے دھبے

یہ بیماری ایک پھپھو ندی (Bipolaris oryzae) کی وجہ سے ہوتی ہے اور باسمتی و موٹی اقسام دونوں پر حملہ آور ہوتی ہے۔ پوٹاش کی کمی والے کھیتوں میں اس کا حملہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس بیماری کا حملہ پتوں  کے  علاوہ  دانوں پربھی ہوتا ہے۔پتوں پر چھوٹے چھوٹے گول یا بیضوی نشان ظاہر ہوتے ہیں جن کے کناروں کا رنگ بھورا اور درمیانی حصہ خاکستری ہوتا ہے۔ شدید حملے کی صورت میں دھبوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔دانوں پر حملے کی صورت میں قدرے گول یا لمبوترے سیاہی مائل بھورے نشان ظاہر ہوتے ہیں۔پنیری پر حملہ کی صورت میں یہ  دور سے جھلسی ہوئی نظر آتی ہے۔

انسداد

  • بیماری سے پاک بیج استعمال کریں۔
  •   مقامی زرعی توسیع عملہ کے مشورہ سیبیج کو پھپھوندی کش زہر2گرام فی کلو گرام بیج  لگا کر کاشت کریں۔
  • نائٹروجن اور فاسفورس کھاد کی متناسب مقدار استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ پوٹاش والی کھاد کا بھی استعمال کریں۔
  •  شدید حملہ کی صورت میں ٹرائی فلوکسی سڑوبن +ٹیوبوکونازول بحساب 65 گرام یا ڈائی فینا کونا زول بحساب 125  ملی لیٹر یا سلفر بحساب800گرام فی ایکڑ سپرے کریں۔

 پتوں کا جراثیمی  جھلساؤ

یہ بیماری ایک جرثومے  (Xanthomonas oryzae pv. oryzae)کی و جہ سے پھیلتی ہے ا ور فصل پر گوبھ کے وقت نمودار ہوتی ہے اور پتے کی نوک اور کناروں سے شروع ہو کر لمبائی اور چوڑائی میں بڑھتی ہے اورتندرست حصوں میں نیچے تک چلی جاتی ہے۔پتوں پر بیماری کی علامات سفید نمدار دھاری کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں بعد میں پتے کا بیمار حصہ سوکھ کر سفید ہو جاتا ہے اور پتہ اوپر کی طرف لپٹ جاتا ہے۔شروع میں اس کا حملہ ٹکڑیوں (Patches)کی شکل میں ہوتا ہے جو بعد میں موافق موسمی حالات میں بڑھ جاتا ہے اور پوری فصل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔دُور سے فصل جُھلسی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔بیمار پودوں پر دانے بہت کم بنتے ہیں اور پیداوار متاثر ہوتی ہے۔

 انسداد

  •   غیر منظور شدہ اور ممنوعہ اقسام ہر گز کاشت نہ کریں۔
  • پنیری کی بر وقت منتقلی کریں اور صرف25 تا  35دن کی پنیری استعمال کریں تاکہ قد لمبا ہونے کی وجہ سے پنیری اوپر سے کاٹنے کے باعث زخمی نہ ہو۔نیز پنیری اکھاڑنے سے ایک دن پہلے پانی ضرور لگائیں تاکہ جڑیں نہ ٹوٹیں۔
  •  بیماری والے کھیت کا پانی دوسرے کھیت میں نہ جانے دیں تاکہ بیماری دوسرے کھیتوں میں منتقل نہ ہو سکے۔دھان کے کھیتوں میں پانی کی سطح 1تا 2 انچ سے زیادہ نہ ہونے دی جائے۔
  • بیماری  کے جرثومہ کے دوران زندگی کے تسلسل کو توڑنے اور اس کے مزید پھیلاوُ کو روکنے کے لئے دھان کی جڑی بوٹیوں کو بروقت کنٹرول کریں۔
  • دھان کے کیڑوں بالخصوص پتہ لپیٹ سنڈی کا بر وقت موثر تدارک کریں۔
  • ابتدائی مر حلہ پر ہی بیماری کی پہچان کر کے بیمار پودوں اور آس پاس والے چند صحت مند پودوں کو اکھاڑ کر تلف کر دیں۔
  • پوٹاش کا استعمال بیماری کے خلاف قوت مدافعت بڑھاتا ہے۔ نائٹروجنی کھاد کو تین برابر اقساط میں یعنی زمین کی تیاری ا ور پنیری کی منتقلی کے بالترتیب 25اور 50 دن بعد ڈالیں۔
  • حملہ کی صورت میں کاپرآکسی کلورائیڈبحساب 500 گرام یاکا پرہائیڈروآکسائیڈبحساب250گرام یاسلفر بحساب800گرام فی ایکڑ سپرے کریں۔

 بھبکا یا بلاسٹ

یہ بیماری ایک پھپھوندی (Pyricularia oryzae) کی  وجہ سے پیدا ہوتی ہے- باسمتی اقسام پر اس کا حملہ زیادہ ہوتا ہے- اس کا حملہ  پتوں، گانٹھوں، مونجر کی گردن اور مونجر پر ہوتا ہے۔ میرا زمین والے کھیت جن میں پانی کھڑارکھنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے وہاں اس کا حملہ شدید ہوتا ہے- پتوں پر آنکھ کی شکل جیسے نشان  بن جاتے ہیں جو دونوں طرف سے نوکیلے ہوتے ہیں۔ اس کے کنارے گہرے بھورے اور ان کا درمیانی حصہ مٹیالے رنگ کا ہوتا ہے۔سازگار حالات میں یہ نشان بڑ ے ہو کر آپس میں مل جاتے ہیں اور پتے کے بڑے حصے کو خشک کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے پودے کی خوراک بنانے کی صلاحیت بہت کم رہ جاتی ہے۔ گانٹھوں پر حملہ کی صورت میں ان کے گردسیاہ نشان پڑ جاتے ہیں جو اس کو پوری طرح گھیر لیتے ہیں۔ متاثرہ گانٹھ اور اس کے اوپر والا حصہ سوکھ جاتا ہے۔مونجر کی گردن پر یا مونجروں پر حملہ کی صورت میں اس کے گرد سیاہی مائل نشانات ایک ہالہ بنا لیتے ہیں جس سے خوراک دانوں میں نہیں پہنچ سکتی اور دانے پورے نہیں بھر پاتے۔شدید حملہ کی صورت میں دانے نہیں بنتے۔

انسداد

  •   بیمار بیج ہرگز کاشت نہ کریں۔
  • فصل پچھیتی کاشت نہ کی جائے۔
  • کٹائی کے بعد متاثرہ فصل کے مڈھ اور پرالی تلف کردیں کیونکہ ان میں بیماری کے تخم ریزے  (Spores)ہوتے ہیں۔
  • نائٹروجن اور فاسفورس والی کھاد مناسب مقدار میں ڈالیں۔
  • گوبھ کی حالت سے لے کر مونجر نکلنے کے دو ہفتے بعد تک کھیت کو خشک نہ ہونے دیں۔
  • شدیدحملہ کی صورت میں ایزوکسی سڑوبن+ڈائی فینوکونازول بحساب200ملی لیٹر یاٹرائی فلوکسی سڑوبن + ٹیبوکونازول بحساب 65گرام یاڈائی فینوکونازول بحساب125ملی لیٹریا سلفر بحساب800گرام یا ویلیڈاما ئسین+ڈائی فینوکونازول بحساب250گرام  فی ایکڑ سپرے کریں۔

 بکائنی

  یہ بیماری ایک پھپھوندی (Fusarium moniliforme) کی وجہ سے وقوع پزیر ہوتی ہے۔ متاثرہ  پودے صحت مند پودوں کی نسبت قد میں لمبے، باریک اور پیلے رنگ کے ہوتے ہیں - تنے پر بھورے رنگ کے دھبے بن جاتے ہیں اور تنا وہاں سے گل سڑ جاتا ہے- یہ بیماری متاثرہ بیج کی کاشت سے اور پچھلے سال کے بیماری زدہ  پرا لی او ر مڈھ( (Plant Debris کھیت  میں موجو د ہونے سے پھیلتی ہے۔ شدید متاثرہ پودے کے پتے نیچے سے شروع ہو کر اوپر تک سوکھ جاتے ہیں اورپودا مر جاتا ہے- تنا نیچے کی گانٹھوں سے گل جاتا ہے- متاثرہ حصے سے اوپر کی گانٹھ سے جڑیں نکل آتی ہیں۔ بیماری سے پودا لمبا ہو کر مر جاتا ہے اور اس پر سفید یا گلابی  مائل سفید پھپھوندی کی روئیں تہہ در تہہ پیدا ہو جاتی ہیں جس میں کروڑوں کی تعداد میں بیماری کے تخم ریزے (Spores)ہوتے ہیں - یہ تخم ریزے دوسرے پودوں میں بیماری پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں - بعض اوقات متاثرہ پودے کے چند شگوفے (Tillers)مر جاتے ہیں اور باقی تنوں پر سٹے نکل آتے ہیں لیکن ان میں دانے بہت کم بنتے ہیں۔ چند بیمار پودے سارے کھیت کو آلودہ کر دیتے ہیں جو اگلے سال بیماری پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔

انسداد

  • بیماری والے کھیتوں میں قوت مدافعت رکھنے والی اقسام سپر باسمتی اور شاہین باسمتی، اری۔6،  کے ایس282-،کے ایس کے 133اور نیاب اری9-کاشت کریں 
  • بیمار پودوں کو اکھاڑ کر ضا ئع کردیں۔
  •   بیماری والے کھیت سے بیج ہرگز نہ لیں۔
  •  بکائنی سے متاثرہ نرسری کھیت میں منتقل نہ کریں۔
  •   بیج کو سفارش کردہ پھپھوند ی کش زہر ضرور لگائیں کیونکہ بکائنی کو کنٹرول کرنے کا یہ موثر ذریعہ ہے اور فصل کے اوپر سپرے کرنے کی اس ضمن میں۔
  • اتنی افادیت نہ ہے۔

تنے کی سڑانڈ

اس بیماری کا سبب ایک پھپھوندی (Sclerotium oryzae)ہے جو موٹی اور باسمتی اقسام  دونوں پر حملہ آور ہوتی ہے۔ اس بیماری کی علامات سٹہ نکلنے کے بعد ظاہر ہوتی ہیں۔بیماری کے ثمری مخزن یعنی جراثیم  (Sclerotia)پانی کی سطح پر تنے کی اوپر والی پرت (Leaf Sheath)کے ساتھ لگ جاتے ہیں اور سیاہی مائل بھورے نشان بنا دیتے ہیں۔ اوپری پرت گل جاتی ہے بعد ازاں یہ بیماری تنے پر حملہ آور ہوتی ہے۔اس طرح تنا گل جاتا ہے اور فصل گر جاتی ہے۔ شدید حملہ کی صورت میں مونجر پر دانے نہیں بنتے اور وہ سفید نظر آتی ہے۔ اگر تنے کو متاثرہ جگہ سے چیرا جائے تو  اندر بے شمار سیاہ رنگ کے چھوٹے چھوٹے بیماری کے ثمری مخزن نظر آتے ہیں۔بیماری کے حملے کے باعث پیداوار متاثر ہوتی ہے۔

انسداد

  • بیماری والیکھیت میں موجود دھان کے مڈھ تلف کر دیں تاکہ ان میں موجود بیماری کے ثمری مخزن تلف ہوجائیں۔
  • کھیت میں پانی زیادہ دنوں تک ایک ہی سطح پر کھڑا نہ رکھیں۔
  • بیماری سے متاثرہ کھیت کا پانی دوسرے کھیت میں نہ جانے دیں۔
  • لاب کی منتقلی کے 55-50دن بعد تر وتر کا پانی لگائیں۔
  • زمین کی تیاری کے وقت بیماری کے ثمری مخزن پانی پر تیر کر کھیت کے کونوں یاکناروں میں جمع ہو جاتے ہیں۔انہیں وہاں سے اکٹھا کر کے تلف کریں۔

کیڑے

دھان کے ضرررساں کیڑے اور ان کا انسداد

دھان کی فصل پر زیادہ تر حملہ آورہونے والے کیڑوں میں تنے کی سنڈیاں، پتا لپیٹ سنڈی، سفید پُشت والا تیلہ اور بھورا تیلہ شامل ہیں۔ تنے کی سنڈیاں زیادہ تر باسمتی اقسام پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ پتا لپیٹ سنڈی اری اور باسمتی دونوں اقسام پر یکساں حملہ آور ہوتی ہے جبکہ سفید پُشت والا تیلہ عموماً اری اقسام پر زیادہ حملہ آور ہوتا ہے۔ لیکن یہ کیڑا اری اقسام کے نہ ہونے کی صورت میں باسمتی اقسام پر بھی حملہ آور ہوتا ہے۔ان کیڑوں کے زیادہ حملہ کی صورت میں فصل بالکل تباہ ہو جاتی ہے اور بعض اوقات کٹائی کے قابل بھی نہیں رہتی۔ ان کے علاوہ ٹوکا (گراس ہاپر) دھان کی پنیری اور فصل دونوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ جن زمینوں میں پانی کھڑا نہیں ہوتا وہاں پر اس کا حملہ زیادہ ہوتا ہے۔  علاوہ ازیں سیاہ بھونڈی (Rice Hispa) بھی دھان پر حملہ آور ہوتی ہے۔ لیکن سیاہ بھونڈی کا حملہ صرف چند جگہوں تک محدود ہے۔ لشکری سنڈی کا حملہ عام نہیں اس کا حملہ بھی چند جگہوں پر دیکھا گیا ہے۔ لیکن اس کا حملہ کافی شدید ہوتا ہے۔ حملہ کی صورت میں ان ضرر رساں کیڑوں کا بروقت اور مناسب طریقہ سے انسداد بہت ضروری ہے۔ ذیل میں ان کیڑوں کے دورانِ زندگی اور انسدادکے بارے میں تفصیل در ج ذیل ہے۔

ٹوکا  (گراس ہاپر)

    دھان کی فصل پر ٹوکے کی6-5 اقسام حملہ کرتی ہیں۔اس کا حملہ پنیری اور فصل دونوں پر ہوتا ہے لیکن اکثر پنیری پر حملہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے بچے اور بالغ پتوں کو کھاتے ہیں۔ بعض اوقات  شدید حملہ کی صور ت میں پنیری دوبارہ کاشت کرنا پڑتی ہے۔ٹوکے کی اکثر اقسام سبز رنگ کی ہوتی ہیں تاہم بعض خاکی اور مٹیالے رنگ کی بھی ہوتی ہیں۔ ٹوکا زمین یا پتوں پر گچھوں کی شکل میں انڈے دیتا ہے۔  ایک گچھے میں 8  تا  13انڈے ہوتے ہیں۔یہ کیڑا موسم سرما انڈوں کی حالت میں کھیت کی وٹوں پریا زمین کے اندر گزارتا ہے۔ان انڈوں سے بچے نکل کر شروع مارچ میں برسیم،سورج مکھی،کماد اور جڑی بوٹیوں پر گذارا کرتے ہیں جہاں سے یہ کماداورسبز چارے کا نقصان کر نے کے بعد دھان کی پنیری پر حملہ آور ہوتے ہیں۔

 انسداد

  • کھیتوں کے اندر اور اطراف میں وٹوں اور کھالوں پر اُگی ہوئی جڑی بوٹیاں تلف کریں تاکہ یہ کیڑا پرورش نہ پا سکے۔
  • دستی جالوں سے پکڑ کر انکو تلف کر دیں۔
  • دھان کی پنیری کو چری اور مکئی کے کھیتوں کے قریب کاشت نہ کریں۔
  • کھیت کے اندر اور باہر وٹوں اور کھالوں کی صفائی کریں۔
  • کیمیائی انسداد کے لئے بائی فینتھرین بحساب 250ملی لیٹر یا فپرونل بحساب 480ملی لیٹر فی ایکڑ استعمال کریں۔

 تنے کی سنڈیاں 

دھان کی فصل خصوصاً باسمتی اقسام پر تنے کی سنڈیوں کا حملہ زیادہہوتا ہے۔زرد اور سفید سنڈیاں زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں جبکہ گلابی سنڈی کم نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ کیڑا موسمِ سرما سنڈی کی حالت (Larval Stage)  میں دھان کے مڈھوں کے اندر گزارتا ہے۔ یہ سنڈیاں مارچ کے آخر یا             اپریل کے شروع  میں کویا(Pupa) میں تبدیل ہوجاتی ہیں جن سے پروانے بن کے نکلتے ہیں اور آئندہ فصل کے لئے خطرے کا باعث بنتے ہیں۔یہ سنڈیاں تنے میں داخل ہوکر اندر ہی اندر کھاتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے پودوں میں درمیان والی کونپل سوکھ جاتی ہے  جسے”سوک یا ڈیڈ ہارٹ“ کہتے ہیں۔ پودوں پر سٹے بنتے وقت حملے کی صورت میں سٹے سفید ہوجاتے ہیں جنہیں ”وائٹ ہیڈ“ کہتے ہیں۔ ان سٹوں میں دانے نہیں بنتے ہیں۔

تنے کی زرد سنڈی

یہمکمل سنڈی سفیدی مائل زرد ہوتی ہے۔پروانے کے اگلے پروں کے درمیان ایک سیاہ نقطہ نما نشان ہوتا ہے۔یہ کیڑا سنڈی کی حالت میں دھان کی پنیری اور فصل کو نقصان پہنچاتا ہے۔ موسم سرما سنڈیاں دھان کے مڈھوں میں سرمائی نیند سو کر گزارتی ہیں۔

تنے کی سفید سنڈی

پروانے کا رنگ چمکداراوردودھیا سفید ہوتا ہے۔مادہ پروانے کے پیٹ کے آخری حصہ پر زرد بالوں کا گچھا ہوتا ہے۔ سنڈی کا رنگ قدرے سبزی مائل سفید ہوتا ہے۔ دھان کی پنیری اور فصل کی ابتدائی حالت میں حملہ شدہ شاخ کو سوک کہتے ہیں۔موسم سرما میں سنڈیاں دھان کے مڈھوں میں سرمائی نیند سو کر گزارتی ہیں۔

تنے کی گلابی سنڈی

پروانے کا رنگ بھورا،جسم بھاری بھرکم،سر چوڑا اور گھنے بالوں سے ڈھکا ہوتا ہے۔ اگلے پروں پر درمیان میں لمبائی کے رخ ایک ہلکی لکیر ہوتی ہے۔ مکمل سنڈی گلابی رنگ کی ہوتی ہے جو فصل کی ابتدائی حالت میں سوک بناتی ہے۔دھان کے علاوہ مکئی،کماد،گندم،جئی،سوانک اور سرکنڈا اس کے میزبان پودے ہیں۔دھان کی فصل پکنے سے کچھ دیر پہلے یہ کیڑا ستمبر اکتوبر کا وقت کماد اور چارہ جات پر گزارتا ہے۔موسم سرما کے ابتدائی دنوں میں انہی فصلات میں سرمائی نیند گزارنے کے بعد دھان پر منتقل ہو جاتا ہے۔ اس کا حملہ ٹکڑیوں کی شکل میں حملہ ہوتا ہے۔

انسداد

  • دھان کے مڈھوں کو ماہ فروری کے آخر تک ہل چلا کر تلف کریں۔
  • کھیتوں میں فالتو اُگے ہوئے دھان کے پودوں کو ماہ اپریل سے پہلے ہی ختم کر دیں  تا کہ پروانوں کو انڈے دینے کے لئے پودے میسر نہ ہوں۔
  • دھان کی پنیری0  2 مئی کے بعد کاشت کریں کیونکہ ان دنوں میں پروانے بہت کم تعداد میں ملتے ہیں۔
  • لاب / پنیری لگاتے وقت سوک والے پودے ہرگز نہ  لگائیں بلکہ ان کو تلف کردیں۔
  • پتوں پر انڈوں کی ڈھیریوں کو تلف کر دیں۔
  • پنیری کے کھیتوں اور ان کے اطراف میں اگی ہوئی جڑی بوٹیاں تلف کر دیں۔
  • رات کو روشنی کے پھندے لگائیں۔
  • کیمیائی انسداد کے لیے کاربو فیوران یا کار ٹیپ بحساب 9کلو گرام یا تھائیامتھاگزم  +کلورنٹرانیلی پرول بحساب 4کلو گرام یا کلورنٹرانیلی پرول بحساب4کلو گرام یا کارٹیپ +فیپرونل بحساب ساڑھے چار ((4.5 کلوگرام فی ایکڑ کیڑے  کے حملہ کے نقصان کی معاشی حد آنے پراستعمال کریں۔

پتہ لپیٹ سنڈی

پروانے کے پر سنہری /زردی مائل بھورے رنگ کے ہوتے ہیں اور ان پرٹیڑھی میڑھی لائنیں ہوتی ہیں۔سنڈی کے سر کا رنگ کالا اور جسم انگوری ہوتا ہے۔  اس کی سنڈیاں پتوں کا سبز مادہ کھا جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے پتوں پر مٹیالے رنگ کی لکیریں پڑ جاتی ہیں۔۔ انڈے سے نکلنے کے بعد سنڈی ایک دو دن تک کھلے پتے پر رہتی ہے اور بعد میں یہ  پتے کے دونوں کناروں کو اپنے لعاب سے  بنائے ہوئے دھاگے سے جوڑ کر اسے نالی نما بنا لیتی ہے اور اس کے اندر رہ کر اس کے سبز مادہ کو کھا جاتی ہے۔اس طرح ضیائی تالیف کا عمل متاثر ہوتا ہے اور خوراک بننے کا عمل کم ہو جاتا ہے۔۔ اس کا حملہ ٹکڑیوں  میں حملہ ہوتا ہے۔ سایہ دار جگہ میں  حملہ زیادہ ہوتاہے۔

انسداد

  • حملے کی ابتدا میں جب چند پودے متاثر ہوں تومتاثرہ پتوں کوکاٹ کرتلف کردیں۔
  • نائٹروجنی کھادوں کا غیر ضروری استعمال نہ کریں کیونکہ فصل کی گہری سبز رنگت  اور نرمی پتہ لپیٹ سنڈی کے پروانوں کو مائل کرنے کا باعث بنتی ہے۔
  • سایہ دار جگہوں پرپتہ لپیٹ سنڈی کا حملہ شدید ہوتا ہے لہذا  ایسے کھیت جن پر درختوں وغیرہ کا سایہ زیادہ ہو وہاں دھان کی کاشت نہ کریں۔
  • روشنی کے پھندے ان کیڑوں کے پروانوں کو تلف کرنے کا ایک موثر طریقہ ہے اس لئے رات کے وقت کھیتوں میں روشنی کے پھندے لگائیں۔
  • جڑی بوٹیوں خصوصاََ گھاس کو کھیتوں او روٹوں پرسے تلف کریں۔
  • کیمیائی انسداد کے لیے تنے کی سنڈیوں والے زہریافلوبینڈامائیڈ50ملیلٹریالیمبڈا سائی ہیلو تھرین بحساب 250ملی لٹرفی100لٹرپانی میں استعمال کریں۔
     

 سیاہ بھونڈی

اس کیڑے کا حملہ چند مخصوص جگہوں پر دیکھا گیا ہے۔  یہ کیڑا لاب منتقل کرنے کے ڈیڑھ (1½) سے دو (2) ماہ کے اندر اندر فصل پر حملہ کرتا ہے۔ اس کیڑے کے جوان پتوں کے اوپر سے اور بچّے پتوں کو اندر سے کھرچ کر سبز مادہ کھا جاتے ہیں۔ جس سے پتوں پر سفید دھاریاں بن جاتی ہیں اورپتا خشک ہوجاتا ہے۔  اس طرح سبز مادہ بہت کم ہوجانے کی وجہ سے پودا خوراک نہیں بنا سکتا اور اس سے فصل کی بڑھوتری متاثر ہوتی ہے۔ شدید حملہ کی صورت میں دھان  کے کھیت  جلے ہوئے یا جھلسے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

انسداد

  • جن پتوں میں بچے موجود ہوں ان کو کاٹ کر تلف کر دیں۔
  • بالغ بھونڈی کو ہاتھ یا دستی جال سے پکڑ کر تلف کریں۔
  • جڑی بوٹیاں خصوصاًدَب اور ڈیلا تلف کریں۔

دھان  کا تیلا

تیلا جسامت میں بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ لیکن نقصان بہت پہنچاتا ہے۔ یہ پودے کے نچلے حصّہ یعنی تنے سے رس چوستاہے۔ جب نیچے سے فصل سوکھ جائے تب اوپر پتوں اور منجروں پر حملہ آور ہوتا ہے۔ یہ کیڑا بچہ (Nymph)  اور بالغ(Adult)  دونوں حالتوں میں فصل کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کا حملہ عام طور پر کھیت میں ٹکڑیو ں کی شکل میں شروع ہوتا    ہے۔ بالغ اور  بچے پودوں کے پتوں اور تنوں کا رس چوستے ہیں۔ متاثرہ پتے پیلے اور پھر بھورے ہوجاتے ہیں۔ شدید حملہ کی صورت میں پودے سوکھ کر سیاہ رنگ کے ہوجاتے ہیں اور جھلسے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ حملہ کی اس نوعیت کو”ہاپر برن یا تیلے کا جھلساؤ“کہتے ہیں۔  ہمارے موسمی حالات میں یہ کیڑے عموماً ستمبر کے دوسرے ہفتہ میں فصل پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ موٹی اقسام اری6- اور نیاب اری9-پر  اس کا حملہ نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔

انسداد

  • کھیت کے اندر اور اطراف میں اگی ہوئی جڑی بوٹیوں کو تلف کریں کیونکہ تیلہ ان پر پرورش پاتا ہے۔
  • دستی جال سے اکٹھا کرکے  تیلے کوتلف کریں۔
  • روشنی کے پھندے ان کیڑوں کے پروانوں کو تلف کرنے کا ایک موثر طریقہ ہے۔رات کو روشنی کے پھندے لگائیں۔
  • کھیت میں مسلسل پانی کھڑانہ رکھیں، حملہ ہونے کی صورت میں فوری سوکا لگائیں۔
  • سایہ دار جگہو ں پر دھان کی کاشت نہ کریں۔
  • نائٹروجن والی کھادوں کا غیرضروری استعمال نہ کریں۔
  • سفارش کردہ تعداد سے زیادہ  پودے نہ  لگائیں۔
  • کیمیائی انسداد کے لیے کاربو فیوران بحساب 8تا10کلو گرام  فی ایکڑ ڈالیں یا پائی میٹروزین بحساب 120گرام یافلونکامیڈ بحساب 80گرام یا کلوتھی اینی ڈن بحساب 200ملی لیٹریا نائٹن پائرام +پائی میٹروزین بحساب 100گرام فی ایکڑسپرے کریں۔

لشکری سنڈی

یہ کیڑا سنڈی کی حالت میں فصل کو نقصان پہنچاتا ہے۔ سنڈی کا رنگ سیاہی مائل سبز ہوتاہے اور اس کے جسم پر ہلکی دھاریاں ہوتی ہیں۔ سال میں اس  کی چارتا پانچ نسلیں  پیدا ہوتی ہیں۔ یہ کیڑا عموماً سبزیات، چارہ جات، کپاس اور تمباکو وغیرہ پر حملہ آور ہوتا ہے اور انہیں شدید نقصان پہنچاتا ہے ا ور اب یہ دھان کی فصل پر حملہ آور ہونے لگا ہے۔ اس کیڑے کا شمار کاٹنے اور کترنے والے کیڑوں کے گروپ میں ہوتا ہے۔ اس کی سنڈی پکتی ہوئی فصل کے سِٹوں کو کاٹ کاٹ کر ضائع کر دیتی ہے۔ شدید حملہ کی صورت میں زمین پر مونجی کے سِٹوں اور دانوں کی تہہ بچھ جاتی ہے  اور پیداوار کا خاصا حصّہ ضائع ہو جاتاہے۔یہ سنڈی چونکہ زیادہ تر پکتی ہوئی فصل پر حملہ کرتی ہے۔ لہذا اس موقع پر ایسے زہروں کا سپرے یا دُھوڑا کرنے کی سفارش کی جاتی ہے جن کا اثر کم عرصہ تک رہے۔

انسداد

  • انڈوں اور چھوٹی سنڈیوں کے حامل پتوں کو توڑکر تلف کر دیں۔
  • متبادل خوراکی پودوں اور جڑی بوٹیوں سے فصل کو پاک رکھا جائے۔
  • اگر سنڈیاں پورے قد کی ہو جائیں تو زہر پاشی سے گریز کریں اور ان کی کویا کی حالت گزرنے کا انتظار کریں۔
  • ٹکڑیوں میں حملہ کی صورت میں پورے کھیت کی بجائے صرف متاثرہ حصوں پر  سپرے کریں۔
  • اگر حملہ شدت اختیار کر جائے اور اس امر کا احتمال ہو کہ اس کی آبادی متاثرہ کھیت سے دوسرے قریبی کھیتوں میں منتقل ہوجائے گی تو ان کھیتوں کے ارد گرد نالیاں کھود کر پانی بھر دیا جائے اور اس میں مٹی کا تیل ڈال دیا جائے۔
  • طفیلی کیڑے اورپرندے اس کے انسداد میں بڑا موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ دھان کے کھیتوں کے نزدیک باجرہ وغیرہ کی فصل کاشت کر کے پرندوں کوترغیب دیں۔
  • فصل کے شروع ہی میں روشنی کے پھندے لگا دیئے جائیں تو کافی حدتک اس کے پروانوں کو تلف کیا جاسکتا  ہے۔ اگر کسی علاقے میں اجتماعی طور پر روشنی کے پھندے لگائے جائیں تو بہتر نتائج  لئے جا سکتے ہیں۔

کیڑوں سے پنیری کا تحفظ

پنیری کو کیڑے مکوڑوں سے بچانے کے لئے مندرجہ ذیل مشوروں پر عمل کیا جائے۔

  1. گذشتہ دھان کی فصل کے مڈھ ہر صورت میں 28فروری سے پہلے تلف کریں۔
  2. پنیری20مئی سے پہلے ہرگز کاشت نہ کریں۔
  3. دھان کا ٹوکہ بعض اوقات پنیری پر شدید حملہ کرتا ہے جس کی وجہ سے بعض دفعہ پنیری دوبارہ کاشت کرنا پڑجاتی ہے۔ اس کے تدارک کے لئے ضروری ہے کہ  کھیت کی وٹوں اورکھالوں کی صفائی کی جائے
  4. فروری مارچ میں کھیت کی وٹوں پر سفارش کردہ زہر کا دھوڑ ا  یاسپرے کریں تاکہ یہ انڈوں سے نکلتے ہی مر جائیں اور پنیری تک نہ پہنچ سکیں۔
  5. اگر پنیری پر ٹوکے کا حملہ معاشی نقصان کی حد(2ٹوکے فی نیٹ) تک پہنچ جائے توپنیری اوراس کے ارد گرد کی وٹوں پرسفارش کردہ زہر کا دھوڑا/سپرے کریں۔تنے کی سنڈیوں کے حملے کی صورت میں جب حملہ معاشی نقصان کی حد یعنی 0.5فیصدسوک تک پہنچ جائے تو سفارش ردہ دانے دار زہر ڈالیں۔
  6. خیال رہے کہ دھان کی پنیری پر زہر پاشی معائنہ کے بغیر نہ کریں۔

سپرے کے لئے احتیاطی تدابیر

  • سپرے صبح یا شام کے وقت کریں۔
  • سپرے کرنے کے بعد زہر والی بوتل کو زمین میں گہرا دبا دیں۔
  • زہر کے اثرات سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
  • سپرے مشین بالکل ٹھیک ہو اورلیک نہ کر رہی ہو۔
  • سپرے کرتے وقت پورا لباس اور  بند جوتے پہنیں۔
  • کیڑوں کے تدارک کے لئے سپرے کرتے وقت ہالوکون اور جڑی بوٹیوں کے لئے ٹی جیٹ نوزل استعمال کریں۔
  • تیز ہوا اور ہوا کے مخالف رُخ سپرے نہ کریں۔
  • آنکھوں پر عینک اور منہ پر ماسک پہنیں۔
  • سپرے کرتے وقت کھانے پینے یا سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں۔
  • جسم پر یا آنکھوں میں زہرپڑ جانے پر متاثرہ حصے کو اچھی طرح پانی سے دھوئیں۔
  • خدا ناخواستہ اگر سپرے کرتے وقت زہر کا اثر ہو جائے تو فوری طور پر سپرے کرنا بند کر دیں اور کھلی ہوا میں آ جائیں۔ فوراً ڈا کٹر سے رجوع کریں نیز ڈاکٹر کو زہر کا لیبل ضرور دکھائیں۔

محفوظ زہر پاشی

کاشتکار بھائیوں کو چاہیے کہ دھان کی فصل پر غیر ضروری زہر پاشی سے اجتناب کریں۔کچھ زہریں جن کے اثرات فصل اور جنس میں دیر تک موجود رہتے ہیں وہ استعمال نہ کریں۔اگر جنس میں زہروں کے اثرات موجود ہوں تو بین الاقومی منڈی میں اس کی مانگ نہیں ہوتی۔ کیڑے اور بیماریوں کی معاشی حد آنے پر ہیسفارش کردہ محفوظ زہر استعمال کریں۔

فصل دوست کیڑوں کی حفاظت

فائدہ مند کیڑے بطور شکاری  کیڑے فصل کے دشمن کیڑوں کو قدرتی طور پر کنٹرول کرتے ہیں مثلاً ڈریگن فلائی،ڈیمپسل فلائی،لیڈی برڈ بیٹل،کرائی سوپا،نمازی کیڑااور مکڑی ۔لہذ ا  ان فصل دوست کیڑوں کو محفوظ ماحول دینے کے لیے بھی زہروں کے اندھا دھند استعمال سے اجتناب کیا جائے۔ 

پیسٹ سکاؤٹنگ و پیسٹ سروے

اہمیت

ہر کھیت میں نقصان دہ کیڑے او ر ان سے ہو نے والے نقصانات کا اندازہ کرنے کو پیسٹ سکاؤٹنگ کہتے ہیں۔ ایک وسیع علاقہ میں نقصان دہ کیڑوں کی اوسط تعداد اور ان کے نقصان کا اندازہ کر نے کے لئے سروے کا عمل تمام سال جاری رہتا ہے۔ اسطرح ان علاقوں کی نشاندہی ہو جاتی ہے جہاں پر آئندہ حملہ ہو نے کا خدشہ ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ کیڑے کا دورانِ زندگی معلوم کیا جاتا ہے۔

پیسٹ سکاؤٹنگ کے فوائد

  • نقصان دہکیڑوں کی پیشگوئی
  • ضرررساں کیڑوں سے متاثرہ  علاقوں کی نشاندہی
  • کیڑوں کے دورانِ زندگی میں کمزور اور حساس پہلوؤں کی نشاندہی
  • ضرر رساں کیڑوں کے انسداد کے لئے بروقت لائحہ عمل کی تیاری
  •   کیڑوں کے خلاف سپرے کے لیے صحیح زہر اور وقت کا انتخاب
  • کھیت کے صرف متاثرہ حصوں کی زہر پاشی
  • مفید کیڑوں کے بڑھنے پھولنے میں معاون
  • اندھا دھند سپرے سے بچاؤاور سپرے کی تعداد، خرچ اور وقت میں بچت۔

دھان کی فصل میں پیسٹ سکاؤٹنگ کے طریقے

1۔ زگ زیگ طریقہ

یہ طریقہ عام طور پر دھان کی پنیری کی پیسٹ سکاؤٹنگ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ شکل نمبر1 کے مطابق ایک تا چار مختلف جگہوں سے ایک ایک مربع فٹ کے پوائنٹ لئے جاتے ہیں۔ جو متعلقہ کھیت یا پلاٹ کی نمائندگی کرتے ہیں۔

2۔وتری طریقہ

شکل نمبر2میں دیئے گئے طریقہ کے مطابق کھیت کے ایک کونے سے  دوسرے کونے تک چلنا شروع کریں۔ پہلے کونے سے 14 قدم پر پہلا پوائنٹ لیں۔ پوائنٹ ایک مربع میٹر کا ہو گا۔ دوسرا پوائنٹ 25 قدم کے بعد لیں۔ اس طرح تیسرا اور چوتھا پوائنٹ بھی 25, 25  قدم کے بعد لیا جائیگا۔ آخر میں کونے سے 14 قدم کا فاصلہ رہ جائیگا۔ 

نوٹ:  فصل دھان بلاک کی صورت میں ہو اور فصل کی قسم، عمر اور حالت ایک جیسی ہو تو کوئی ایک کھیت منتخب کریں۔ جو نمائندہ کھیت کہلائے گا۔ انتخاب شدہ کھیت سے وتری طریقہ سے پیسٹ سکاؤٹنگ کریں۔ یہ طریقہ عملی طور پر آسان اور سائنسی لحاظ سے بہت بہتر ہے۔

جڑی بوٹیوں کی روک تھام

دھان کی جڑی بوٹیاں
دھان کی فصل میں مختلف اقسام کی جڑی بوٹیاں اگتی ہیں۔ طبعی شکل کے  لحاظ سے ان کودرج ذیل تین مختلف گروپوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
(i)گھاس کے خاندان کی جڑی بوٹیاں

اس خاندان کی جڑی بوٹیوں کے پتے باریک اور نوکیلے ہوتے ہیں۔ تنا عموماََ گول اور جوڑدار ہوتا ہے۔ پودے زمین کی سطح پر بچھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن کچھ زمین سے اوپراٹھے ہوئے بھی ہوتے ہیں۔

اس خاندان کی اہم جڑی بوٹیاں یہ ہیں:

  • بانسی گھاس(Eragrostis japonica) 
  • سوانکی گھاس (Echinochloa colona)
  • ڈھڈن(Echinochloa crusgalli)
  • کھبل گھاس(Cynodon dactylon)
  • نڑو(Paspalum distichum) اور کلر گھاس یا لمب گھاس(Liptochloa chinensis)وغیرہ۔

(ii)  ڈیلے کے  خاندان کی جڑی بوٹیاں 
اس خاندان کی جڑی بوٹیوں کے پتے نوکیلے، پرنالہ نما، لمبے اور چمکدار ہوتے ہیں۔ ان کا تنا تین کونوں والا ہوتا ہے۔ پتے کے درمیان ایک لمبی اور واضح رگ ہوتی ہے۔ صوبہ پنجاب میں دھان کی فصل میں

اس گروپ سے تعلق رکھنے والی جڑی بوٹیاں یہ ہیں:

  • گھوئیں Cyperus difformus)
  •  بھوئیں (Cyperus iria)
  • ڈیلا (Cyperus rotundus )وغیرہ۔

(iii)چوڑے پتوں والی جڑی بوٹیاں
اس خاندان کی جڑی بوٹیوں کے پتے چوڑے اور مختلف شکلوں کے ہوتے ہیں۔ تنا قدرے سخت ہوتا ہے اور پودا زمین سے اوپر کو اٹھا ہوا اور سیدھا ہوتا ہے۔

اس خاندان کی اہم جڑی بوٹیاں یہ ہیں:

  • کتا کمی (Nymphea stellata)
  • مرچ بوٹی (Sphenoclea zeylanica)
  • چوپتی (Marsilea minuta)
  • دریائی بوٹی (Eclipta prostata) وغیرہ۔ 

جڑی بوٹیوں کا انسداد

  • زمین کی اچھی تیاری سے جڑی بوٹیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ دھان والے کھیتوں ادل بدل کے ساتھ چارے  یا سبز کھاد والی فصلیں کاشت کریں۔
  • اگر وافر مقدار میں پانی موجود ہو تو کھیت میں لاب کی منتقلی کے بعد20تا25 دن تک پانی کی سطح ایک تا دوانچ تک برقرار رکھیں۔
  • جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لئے کیمیائی زہروں کا انتخاب اور استعمال زرعی توسیعی کارکن کے مشورہ سے کریں۔
  • لاب کی منتقلی کے بعد جڑی بوٹی مارزہریں ڈالنے کے 5دن بعد تک کھیت سے پانی خشک نہ ہونے دیں۔
  • اگر کسی وجہ سے فصل میں جڑی بوٹیاں اُگ آئیں توبعد از اگاؤ اثر کرنے والی سفارش کردہ زہریں لاب کی منتقلی کے ایک مہینہ کے اندر استعمال کریں۔

دھان کی بذریعہ بیج براہ راست کاشت

جڑی بو ٹیوں کا انسداد

اس طریقہ کا شت میں جڑی بو ٹیو ں کی موجود گی زیادہ  نقصان کا باعث بنتی ہے اور ان کے انسداد کے مو ا قع بھی محد ود ہو تے ہیں۔فصل کی بڑھو تری کے ابتدا ئی مرا حل میں جڑی بو ٹیوں کے اگا ؤ اور نشو و نما کے لئے حالا ت  زیادہ سا ز گا ر ہو تے ہیں۔ اسلئے ان کے کنٹرول کے لئے زیا دہ تو جہ درکا ر ہو تی ہے۔ مربو ط انسدا د کے طریقے درج ذیل ہیں۔

  • بوائی سے پہلے مئی کے مہینے میں دوہری راؤنی کرکے ہل چلا ئیں۔ 
  • اگر دھان کی کاشت وتر حالت میں کی گئی ہو تو بوائی کے فوراً بعد قبل از اگاؤاثرکرنے والی سفارش کردہ جڑی بوٹی مار زہر کا سپرے کریں۔
  • اگر کاشت خشک زمین میں کی گئی ہو تو کاشت کے فوراً بعد پانی لگائیں اور اگلے دن قبل از اگاؤ اثرکرنے والی سفارش کردہ جڑی بوٹی مار زہر کا سپرے کریں۔ خیال رہے کہ سپرے کرتے وقت کھیت میں پانی کھڑا نہ ہو.۔
  • اگی ہوئی جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کے لیے بوائی کے 15تا18دن بعد وتر حالت میں بعد از اگاؤ اثرکرنے والی سفارش کردہ جڑی بوٹی مار زہر کا سپرے کریں۔ بعض اوقات زہر کا ایک ہی سپرے کافی ہوتا ہے۔ اگر جڑی  بوٹیاں دوبارہ اگ آئیں توبوائی کے 40 دن بعد دوبارہ سپرے کریں۔ سپرے  کے وقت کھیت تر وتر حا لت میں ہونا چاہئیے۔ دونوں مرتبہ سپرے کے 24 تا 36گھنٹے کے بعد کھیت کو پانی ضرور لگا دیں  اور 4تا 6دن تک پانی کھڑا رکھیں۔

آبپاشی

آبپاشی

پنیری کی منتقلی کے وقت کھیت میں پانی کی گہرائی ایک تا ڈیڑھ انچ رکھیں۔ زیادہ پانی کھڑا ہونے کی صورت میں پودے تیز ہوا چلنے سے اکھڑ جائیں گے۔ پانی کی کمی کی صورت میں پودے گرمی کی وجہ سے مر جائیں گے۔ منتقلی کے ہفتہ عشرہ بعد پانی کی گہرائی بتدریج بڑھا دیں لیکن 2انچ سے زیادہ نہ ہونے دیں کیونکہ زیادہ گہرائی کی صورت میں پودوں کی شاخیں کم بنیں گی۔ لاب کی منتقلی کے 25-20 دن  بعدتک(پانی کی کم یابی کی صورت میں 15دن تک) کھیت میں پانی کھڑا رکھیں اور پھر 5تا6دن کے لیے کھیت کو ہوا لگنے دیں۔  یاد رہے کہ کھیت تر رہے اور خشک نہ ہونے پائے ورنہ زمین میں دراڑیں یعنی کریک بن جائیں گے اور کھیت میں پانی کھڑاکرنا مشکل ہوگا۔  اس کے بعد فصل کو تروتر کا پانی لگاتے رہیں تاہم کیڑے مار دانے دار زہریں ڈالتے وقت کھیت میں 5تا6 دن کے لئے ڈیڑھ  تا دوانچ پانی ضرور موجود ہونا چاہیے۔ اس مرحلہ پر وتر کا پانی دینے سے فصل کا قد مناسب ہو گا، اس کی جڑیں زیادہ گہری جائیں گی، فصل گرے گی نہیں، کیڑوں اور بیماریوں کا حملہ کم ہو گا اور فصل مناسب وقت پر پک جائے گی۔ دانہ بھرنے کے بعد یعنی فصل پکنے سے دوہفتہ قبل پانی دینا بند کر دیں تاکہ فصل کی کٹائی کے وقت کھیت گیلا  ہونے کی وجہ سے دشواری نہ ہو۔

یاد رہے کہ سٹہ نکلتے وقت اور دانہ بھرتے وقت فصل کو پانی کی کمی نہ آنے دیں۔ وہ علاقے جہاں کھیتوں میں پانی کھڑا نہیں ہوتا وہاں دھان کی فصل خصوصاََ باسمتی اقسام پر دھان کے بھبکے کا حملہ زیادہ ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں گوبھ سے لے کر دانہ بھرنے تک کھیت کو سوکا ہر گز نہ لگنے دیں بلکہ کوشش کریں کہ کھیت میں پانی موجود رہے۔بصورت دیگر بلاسٹ کا حملہ زیادہ ہوگا- 

دھان کی بذریعہ بیج براہ راست کاشت

آبپاشی

  • آبپاشی کا انحصا رمو سم،زمین  اور طریقہ کاشت پر ہو تا ہے۔ زمین کی صحیح طو ر پر ہموا ری پا نی کے بہتراستعمال کے لئے بہت اہم ہے۔
  • پہلا پانی فصل کی بوائی کے 5تا7دن کے بعدلگا ئیں۔ اگا ؤ کے بعد 30دن تک تر وتر کا پا نی لگا تے رہیں۔ اس کے بعد وتر کا پانی لگائیں۔
  • دا نے دا ر زہریں ڈا لتے وقت 3  سے 4   دن تک کھیت میں پا نی کھڑا رکھیں تا کہ زہر اپنا پو را اثر کر سکے۔
  • دا نہ بننے  وقت فصل کو کسی صو رت سو کا نہ لگنے دیں ورنہ پیدا وا ر متا ثر ہو سکتی ہے۔
  • فصل کی کٹا ئی سے15 تا 18 روز پہلے پا نی لگانا بند کردیں۔

کھادیں

 دھان کی فصل کے لئے کھادوں کی سفارشات

بہترنتائج کے لئے کھادوں کا استعمال زمین کے کیمیائی تجزیہ کے مطابق کریں تاہم اوسط زرخیز زمین کے لئے کھادوں کی مقدار گوشوارہ میں دی گئی ہے۔

گوشوارہ:         دھان کی فصل کے لئے کھادوں کی سفارشات

قسم دھان  وعیت زرخیزی نائٹروجن (کلوگرام فی ایکڑ) فاسفورس (کلوگرام فی ایکڑ) پوٹاش (کلوگرام فی ایکڑ) کھادوں کی مقدار(بوریوں میں)  فی ایکڑ
موٹی اقسام بعداز گندم 69 41 32  پونے دو بوری ڈی اے پی+  سوا  دوبوری یوریا +سوا بوری ایس او پی
باسمتی اقسام بعداز گندم 55 36 25  ڈیڑھ بوری ڈی اے پی +پونے دو بوری یوریا +ایک بوری ایس او پی   

کھادوں کے استعمال سے متعلق ہدایات

  • اگر سابقہ فصل برسیم یا پھلی دار ہو یا کھیت وریال ہوتو نائٹروجنی کھاد کی مقدار میں 20 فیصد کمی کر لیں۔
  • سفارش کردہ خوراکی اجزاء کے لئیگوشوارہ نمبر5 کی  مدد سے متبادل کھادیں بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔
  • فصل کی حالت، زمین کی زرخیزی اور سابقہ فصل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کھاد کی مقدار میں کمی یا بیشی کی جا سکتی ہے۔
  • فاسفورس و پوٹاش کی پوری  اور نائٹروجن کی1/3  مقدارکدو کرتے وقت آ خری ہل چلا کرڈالیں اور سہاگہ دیں۔نائٹروجنی کھا د کی بقیہ مقدار دو برابر اقساط میں ڈالیں اور20اگست سے پہلے مکمل کرلیں۔
  • اگر پوٹاش کی کھاد بوائی کے وقت استعمال نہ کی گئی ہو تو نائٹروجنی کھاد کی دوسری قسط کے ساتھ استعمال کی جاسکتی ہے۔
  • کھاد کا چھٹہ دیتے وقت کھیت میں پانی کی مقدار کم سے کم رکھیں۔ بہتر ہے کہ پانی بالکل نہ ہو صرف کیچڑ ہی ہو۔
  • نائٹروجنی کھا د کا استعمال دی گئی ہدایات کے مطابق کریں تاہم اڈیپٹو ریسرچ گوجرانوالہ کے تجربات میں یہ بات سامنے آ ئی ہے کہ دھان کی باسمتی اقسام میں اگر نائٹروجنی کھا د کا استعمال 7 تا 10 دن کے وقفہ سے 3تا 4  اقساط میں کیا  جائے  تو کھاد کی کارکرگی اور افا دیت بڑھ جاتی ہے اور فصل پر نقصان دہ اثرات بھی مرتب نہیں ہوتے۔
  • ٹیوب ویل سے سیراب ہونے والی زمینوں میں پوٹاش کی زیادہ کمی ہوتی ہے۔ شدید کمی کی صورت میں پوٹاش کی کھاد کا سپرے کریں۔
  • ناقص پانی (زائد سوڈیم والا) سے سیراب ہونے والی زمینوں میں سفارش کردہ کھاد کے علاوہ جپسم کی کھاد بحسا ب پانچ بوری فی ایکڑ بھی ڈالیں۔
  •  کلراٹھی زمینوں میں 25% زیادہ نائٹروجنی کھاد استعمال کریں۔

سفارش کردہ خوراکی اجزاء کی مقدار کے حصول کے لئے گوشوارہ نمبر5 کی مدد سے متبادل کھادیں بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔

گوشوارہ نمبر5 :    مختلف کھادوں میں غذائی اجزا کی مقدار

نام کھاد وزن بوریkg غذائی اجزاء(فیصد)  فی بوری غذائی اجزاء کی مقدار (کلوگرام)
    نائٹروجن
N
فاسفورس 
P2O5
پوٹاش
K2O
نائٹروجن
N
فاسفورس 
P2O5
پوٹاش
K2O
یوریا 50 46 - - 23 - -
امونیم نائٹریٹ 50 26 - - 13 - -
کیلشیم امونیم نائٹریٹ(CAN) 50 26 - - 13 - -
ٹرپل سپر فاسفیٹ (ٹی۔ایس۔پی) 50 - 46 - - 23 -
سنگل سپر فاسفیٹ(%18) 50 - 18 - - 9 -
سنگل سپر فاسفیٹ(%14) 50 - 14 - - 7 -
ڈائی امونیم فاسفیٹ (ڈی اے پی) 50 18 46 - 9 23 -
نائٹروفاس 50 22 20 - 11 10 -
پوٹاشیم سلفیٹ (ایس او پی) 50 - - 50 - - 25
پوٹاشیم کلو رائیڈ (ایم ا و پی) 50 - - 60 - - 30

زنک کی کمی کی علامات اور زنک سلفیٹ کا استعمال

زنک کی کمی کی صورت میں پودے کے نچلے پتوں پر چھوٹے چھوٹے بھورے سیاہی مائل دھبے دکھائی دیتے ہیں۔ پھر یہ دھبے اُوپر والے پتوں پر ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور پتے زنگ آلود دکھائی دیتے ہیں۔پودے کی بڑھوتری رک جاتی ہے۔ پودے کو اگر اکھاڑنے کی کوشش کی جائے تو بغیر کسی دِقت کے اکھڑ جاتا ہے کیونکہ اس کی جڑوں کی نشوونما نہیں ہورہی ہوتی۔ زیادہ کمی کی صورت میں پتہ درمیان سے لمبائی یا چوڑائی کے رخ پھٹ جاتا ہے۔

.1     لاب میں زنک سلفیٹ کا استعمال

دھان کی نرسری میں کاشت کے 2ہفتہ بعدزنک سلفیٹ (33فیصد) بحساب200گرام یا زنک سلفیٹ(27فیصد)بحساب 250 یا زنک سلفیٹ(21فیصد) بحساب 300 گرام فیفی مرلہ استعمال کرنے سے  فصل کی ضرورت پوری کی جاسکتی ہے۔

.2     لاب کی جڑوں کو زنک آکسائیڈکے محلول میں ڈبونا

پنیری کو کھیت میں منتقل کرنے سے پہلے اس کی جڑوں کو زنک آکسائیڈکے دو فیصد محلول میں ڈبو ئیں۔ اس کے لئے اگر ایک کلو گرام زنک آکسائیڈ 50لیٹر پانی میں حل کریں تو یہ ایک ایکڑ فصل کی پنیری کیلئے کافی ہوتا ہے۔

نوٹ :     اوپر والے دونوں طریقے معمولی کمی کی صورت میں کارگر ہیں۔

.3     فصل میں زنک سلفیٹ کا استعمال

زیادہ کمی کی صورت میں زنک سلفیٹ(33فیصد) بحساب 6 یازنک سلفیٹ(27فیصد)بحساب 7.5 یا زنک سلفیٹ(21فیصد) بحساب10 کلوگرام فی ایکڑ لاب منتقل کرنے کے دس دن بعد چھٹہ کریں۔ 

بوران کا استعمال

بوران کی کمی کی صورت  میں نئے نکلتے ہوئے پتوں کی نوکیں سفید اور لپٹی ہوئی ہوتی ہیں۔ شدیدکمی کی صورت میں نئے نکلنے والے پتے گرجاتے ہیں تاہم نئے شگوفے (Tillers)بنتے  رہتے ہیں۔ اگر سٹے نکلتے وقت  بوران کی کمی آئے تو دانے نہیں بنتے۔بوران کی کمی دھان کے بعض علاقوں میں دیکھی گئی ہے۔ تجربات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ بوران کی کمی کی صورت میں اس کا استعمال دھان کی پیداوار میں اضافہ کا باعث بنتا ہے اور دانے کا معیار بھی بہترہوتا ہے۔ اس کے لئے زمین کی تیاری کے وقت بورک ایسڈ بحساب 3  یا  بوریکس 10.5فیصد بحسا ب 4.5 کلو گرام فی ایکڑ استعمال کی جا سکتی ہے۔

سبز کھاد کا استعمال

ہماری زمینوں میں نامیاتی مادہ کی مقدار بہت کم ہے، اسے بہتر کرنے کے لئے  نامیاتی کھادوں کا استعمال ناگزیر  ہے۔تجربات کے مطابق دھان کے علاقہ میں جنتر بطور سبز کھاد زیادہ بہتر نتائج دیتا ہے۔ اس کیلئے گندم یا ربیع فصلات کی کٹائی کے فوراً بعدسنگل ہل چلا کر کھیت کو پانی لگائیں اور جنتر کے بیج کا  چھٹہ دے دیں۔ چھٹہ دینے سے پہلے بیج کو چند گھنٹے کے لئے پانی میں بھگو لیں۔ گندم کو آخری پانی لگاتے وقت بھی اس میں جنتر کے بیج کا چھٹہ دیا جا سکتا ہے۔ گندم کی فصل کی برداشت سے جنتر کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ دھان کی پنیری کی منتقلی سے تقریباََ 15تا20دن پہلے جب جنتر کی فصل میں پھول نکلنا شروع ہو جائیں توہل چلا کر اسے زمین میں ملا دیں۔کھیت میں پانی کھڑا رکھیں اور منتقلی دھان سے کچھ دن پہلے کدو کریں اور کھیت تیار کرلیں۔جنتر کی باقیات کو بہتر طور پر گلانے کے لئے آدھی بوری یوریا فی ایکڑ استعمال کی جا سکتی ہے۔ 

دھان کی بذریعہ بیج براہ راست کاشت کے لئے کھا دو ں کی سفارشات

کھا دو ں کی سفارشات

کھادوں کا مناسب اور متناسب استعمال دھان کی اچھی پیدا وار حا صل کرنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ غیر متنا سب استعمال کی صو رت میں پو دو ں کی جڑیں صحیح طور پر نشو و نما نہیں کرپا تیں جس سے فصل گر جا تی ہے اور پیدا وار میں کمی آ جا تی ہے۔ کھاد وں کا متوازن استعما ل کرنے کے لئے زمین کا تجز یہ کرائیں۔  تاہم اوسط زرخیزی والی زمین کے لئیدھان کی فصل میں کھادوں کی سفارشات درج ذیل ہیں۔

باسمتی اقسام:  60،34اور25کلوگرام بالترتیب  نائٹروجن,فاسفورس اور پوٹاش یعنی ڈیڑھ بوری ڈی اے پی، دو بوری یوریا  اور ایک بوری ایس او پی فی ایکڑ۔

موٹی اقسام: 71،34اور25کلوگرام بالترتیب نائٹروجن, فاسفورس اور پوٹاش یعنی ڈیڑھ بوری ڈی اے پی،اڑھائی بوری یوریا، اور ایک بوری ایس او پی فی ایکڑ۔

کھادوں کے استعمال کا طریقہ

ڈی اے پی  اور ایس او پی کی  پوری  مقدار بوائی کے وقت ڈال دیں۔یوریا کی پونی بوری بوائی کے 30 تا 35 دن بعدجڑی بوٹیاں مکمل طور  پر تلف کرکے ڈالیں۔ اس کے بعد حسب ضرورت آدھی تا پونی بوری یوریا  فی ایکڑڈال دیں۔ یوریا کی بقیہ مقدار بوائی کے 55تا60 دن بعد  ڈال دیں۔

زنک اور بوران کا استعمال

  • زنک سلفیٹ(33فیصد) بحساب 6یازنک سلفیٹ(27فیصد)بحساب 7 یا زنک سلفیٹ(21فیصد) بحساب 10 کلوگرام فی ایکڑ بوائی کے18تا20دن بعد ڈالیں۔
  • بوران کی کمی کی صورت میں زمین کی تیاری کے وقت بورک ایسڈ بحساب 3 یا بوریکس 20فیصد بحسا ب 4.5 کلو گرام فی ایکڑ استعمال کریں۔اگر پچھلی فصل میں بوران کا استعمال کیا گیا ہو تو دھانمیں اس کے استعمال کی ضرورت نہیں ہے۔

 

کٹائی

فصل کی برداشت

دھان کی اچھی اور معیاری پیداوار حاصل کرنے کے لئے مناسب طور پر برداشت بہت ضروری ہے۔ کٹائی کا مناسب وقت وہ ہے  جب  سٹے کے اوپر والے دا نے پک چکے ہوں اور نچلے دو تا تین دانے ہر ے ہوں لیکن بھر چکے ہوں۔دانے میں نمی کا تناسب 20  تا22   فیصدہو۔ اگر فصل کمبائن ہارویسٹر سے کٹوانی ہو تو ترجیحاً رائس ہارویسٹر سے کٹوائیں۔اگر رائس ہارویسٹر میسر نہ ہو تو ایسی کمبائن مشین استعما ل کریں جس میں دھان کی کٹائی کے لئے ایڈجسٹمنٹ ہو تاکہ دانے کم ٹوٹیں۔ کیونکہ عام کمبائن گندم کی کٹائی کے لئے ڈیزائن کئے گئے ہیں اور دھان کی کٹائی میں دانے بہت زیادہ ٹوٹتے ہیں۔ مزید یہ کہ کمبائن کی رفتار آہستہ رکھیں اور فصل کو نسبتاً اونچا کاٹیں اس طرح دانے کم ٹوٹیں گے۔برداشت کے بعد پیداوار کو جلد از جلد منڈی پہنچائیں۔ اگر سٹور کرنا ہو تو اچھی طرح دھوپ میں (4تا6دن) سکھاکر جب اس میں 12تا13فیصد نمی ہو تو سٹور کریں۔

مشینی کی کٹائی

 دھان کی برداشت بذریعہ کمبائن ہارویسٹر کاشتکار بھائیوں میں مقبول ہو رہی ہے۔  اس مقصد کے لئے عام طور پر استعمال ہونے والی مشینیں بنیادی طور پر گندم کی برداشت کے لئے بنی ہوئی ہیں - اس لئے برداشت کے دوران یہ مشینیں دانے توڑ دیتی ہیں اور کچھ ان کا چھلکا اتار دیتی ہیں۔یہ مشینیں  سبز، کمزور اور خالی دانے جھاڑنے کے ساتھ ساتھ پودے کے سبز  حصے بھی کاٹ لیتی ہیں جو جنس میں زیادہ نمی اور میعار کو کم کرنے کا باعث بنتے  ہیں۔  اس لئے اس ضمن میں مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کر یں-

  1. دھان کی فصل کی برداشت کے لئے رائس ہارویسٹر یعنی کبوٹا وغیرہ استعمال کریں۔
  2. گندم برداشت کرنیوالی مشینوں کے ساتھ دھان کی برداشت کرنے کے لئے مخصوص پرزہ جات (Attachment) استعمال کریں۔
  3. مشین کرایہ پر لینے سے پہلے اس بات کی تسلی کر لیں کہ آپریٹر تربیت یافتہ ہے اور مشین کو فصل کے مطابق ایڈجسٹ (Adjust) کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
  4. فصل کی برداشت کے دوران مشین کی رفتار مقررہ حد سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔
  5. گری ہوئی  یا لمبے قد والی فصل کی برداشت کرتے وقت مشین کی رفتار کم رکھیں۔
  6. دھان کی برداشت بذریعہ کمبائن  ہارویسٹرکرتے وقت تسلی کر لیں کہ مشین کا گیئر‘ تھریشنگ ڈرم اور پنکھے کی رفتار مشین کے ساتھ فراہم کردہ ہدایت نامہ کے مطابق ہے۔
  7. برداشت کے دوران وقفے وقفے سے مو نجی کا معائنہ کر کے چھلے یا ٹوٹے ہوئے دانوں کا تعین کرتے رہیں تاکہ مشین کو بروقت ایڈجسٹ کیا جا سکے۔
  8. برداشت کے دوران مشین کے پیچھے چادر یا کپڑا لگا کر وقتاً فوقتاً تسلی کر لیں کہ مونجی کے دانے پرالی میں نہیں جا رہے۔
  9. اگر کسی وجہ سے دھان کی کٹائی میں تاخیر ہو جائے اور دانوں میں نمی کی سطح 18 فیصد سے کم ہو جائے تو مشینی کٹائی سے اجتناب کریں وگرنہ چھڑائی میں ٹوٹا بہت زیادہ ہوگا۔
  10. ایک  ورائٹی کی برداشت کے بعد مشین کی مکمل صفائی کر لیں تاکہ مختلف اقسام کی ملاوٹ نہ ہو اور چاول کی کوالٹی متاثرنہ ہو۔ .

دھان کے مڈھوں کوکُترنے والی مشین (Rice Straw Chopper)

دھا ن کی کٹائی جب کمبائن ہارویسٹر کے ساتھ کی جاتی ہے تو بڑی مقدار میں دھان کا پرول یعنی کٹی ہوئی پرالی کھیت میں بکھری ہوئی رہ جاتی ہے۔ کاشتکار بھائی دھان کی برداشت کے بعد اگلی فصل کے لئے زمین کی تیاری کرنے سے پہلے دھان کے مڈھوں  اور پرول کو جلا دیتے ہیں۔اس کی وجہ سے زمین کی بالائی سطح پر موجود نامیاتی مادہ جل جاتا ہے اور آگ سے اٹھنے والا دھواں نہ صرف فضائی آلودگی میں اضافے کا باعث بنتا ہے بلکہ سموگ کابھی موجب بنتا  ہے۔ اس لئے حکومت نے فصلوں کی باقیات جلانے پر پابندی لگا دی ہوئی ہے جس کی بنا پر کاشتکاروں کوپرول اور مڈوں کی تلفی میں بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔  اب دھان کے مڈھوں کی کٹائی کے لئے رائس سٹرا چاپر بھی دستیاب ہے جس کے استعمال سے فصل کی باقیات کے ساتھ ساتھ کھیت میں موجود جڑی بوٹیاں بھی تلف ہو جاتی ہیں۔ اس سے زمین میں نامیاتی مادہ کی مقدار،زرخیزی اور پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔

 

ذخائر

Crop Calendar