آم

پھلوں میں آم کو غذائیت اور لذت کے لحاظ سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔اسی بناء پر اس کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتاہے-

فصل کے بارے

اہمیت
پھلوں میں آم کو غذائیت اور لذت کے لحاظ سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔اسی بناء پر اس کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتاہے۔یہ پھل پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک مثلاً انڈیا،چین ،تھائی لینڈ،میکسیکو،انڈونیشیا اور برازیل وغیرہ میں بھی کاشت ہوتا ہے۔مگر پاکستا نی آم اپنے مخصوص ذائقہ کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول ہے۔اس پھل میں وٹامن اے،بی اور سی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔پاکستان میں پھلوں کی پیداوار میں آم کو امتیازی مقام حاصل ہے اور اسکی برآمد سے بھی کافی زرمبادلہ کمایا جا رہا ہے ۔
پاکستان میں اس وقت تقریباً 4لاکھ 21ہزار ایکڑ رقبہ پر آم کے باغات ہیں اور مجموعی پیداوار تقریباً 17لاکھ ٹن ہے۔ہمارے ہاں آم کی اوسط پیداوار تقریباً 109من فی ایکڑ ہے۔جس میں گذشتہ کچھ سالوں سے ٹھہراؤ آگیا ہے۔اس کی کئی وجوہات ہیں مگر باغات پر تجربات اور مشاہدات سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اگر مناسب اقسام کی کاشت،حسب ضرورت آبپاشی ،بروقت غذائی اجزاء کی فراہمی ،شاخ تراشی،مناسب اور بروقت تحفظ نباتات جیسے بنیادی کاشتی امور پر عمل کیا جائے تو باغات کی فی ایکڑ پیداوار میں نہ صرف اضافہ کی کافی گنجائش ہے بلکہ پھل کی کوالٹی کو مزید عمدہ بنا کر آمدن میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کتابچہ میں ان عوامل کا ذکرکیا گیا ہے جن کو اپناکراگر باغات کی مناسب نگہداشت کی جائے تو آم کی پیداوار او ر معیار میں بہتری لاکر آمدن میں یقیناً اِضافہ کیا جاسکتا ہے۔

 

بیج

آم کی سفارش کردہ اقسام 
پاکستان میں آم کی ایک سو سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں جن میں پچاس اقسام ایسی ہیں جو عمومی طور پر زیادہ کاشت ہوتی ہیں ۔لیکن ان میں سے بھی چند اقسام ایسی ہیں جو مارکیٹ میں خاص مقام رکھتی ہیں اور ان کا پھل اچھی قیمت پر فروخت ہو تا ہے۔لہذا آپ اپنے باغات کے لیے مختلف اقسام کا انتخاب کرتے ہوئے مندرجہ ذیل اقسام تک محدود رہیں۔
* دوسہری      * یکتا                      * سینسیشن
* مالدہ           * سندھڑی                * چونسہ 
* لنگڑا          * انوررٹول              * ثمر بہشت(چونسہ)
* فجری        * چونسہ سفید(لیٹ)     * رٹول نمبر 12


مخلوط (Hybrid)اقسام: ایم آر ایس۔عالیشان ،ایم آر ایس ۔روحان ،ایم آر ایس۔حسان اور رائل وائٹ ۔
 

کاشت

زمین کا انتخاب 
آم کلر اٹھی اور ریتلی زمینوں کے علاوہ تمام اقسام کی زمینوں میں کاشت کیا جاسکتا ہے مگر بہتر پیداوار کے لیے زرخیز میرا زمین جس کی6.5pH سے7.5 ہو اورا س میں پانی کا نکاس بہت اچھا ہو مناسب ہے۔آم کی جڑیں تقریباً 15سے 20فٹ گہرائی تک جاتی ہیں مگر 5سے 7فٹ گہرائی انتہائی اہم ہے۔تاہم خوراکی اجزاء حاصل کرنے کے لیے جڑوں کا زیادہ موثر نظام صرف اوپر والی 2فٹ زمین میں موجود ہوتا ہے۔لہذا باغ لگانے سے قبل کھیت میں مختلف گہرائیوں سے مٹی کے نمونے لے کر ان کا لیبارٹری میں تجزیہ ضرور کروانا چاہیے۔بہتر ہے کہ ایسی زمین کا انتخاب کیا جائے جہاں تقریباً 6فٹ کی گہرائی تک ریت کنکر یا سخت تہہ نہ ہو ۔ایسی زمینوں پر جدید پیداواری ٹیکنالوجی کو اختیار کرتے ہوئے بہت اچھی پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے مگر روائتی کاشتکاری سے ان زمینوں سے آم کی اچھی پیداوار حاصل کرنا مشکل ہے۔
داغ بیل
آم کا باغ لگانے کے دو طریقے رائج ہیں۔ مربع نما اور مستطیل نما ۔مگر مربع نما طریقہ زیادہ مقبول ہے۔اس طریقہ میں پودے مربع کے کونوں پر لگائے جاتے ہیں اور پودوں اور لائنوں کا درمیانی فاصلہ برابر ہو تا ہے۔جس سے پودوں کے درمیان زیادہ جگہ ہونے کی وجہ سے باغ میں ہل چلانا آسان ہے علاوہ ازیں دیگر کاشتی امور بھی سر انجام دیئے جاسکتے ہیں ۔تاہم اگر باقاعدگی سے پودوں کی کانٹ چھانٹ کی جائے تو مستطیل طریقہ سے فی ایکڑ پودوں کی تعداد بہتر بنا کر پیداوار میں خاطر خواہ اِضافہ کیا جاسکتا ہے۔اس طریقہ میں مشرق سے مغرب کی طرف زیادہ فاصلہ جبکہ شمال و جنوب کی طرف کم رکھا جاتا ہے۔آج کل دنیا بھر میں مختلف پھلدار پودوں کی فی ایکڑ زیادہ تعداد کا رواج بہت مقبول ہو رہا ہے۔اس طرح نہ صرف فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہو تا ہے بلکہ پھل کی کوالٹی اچھی اور پیداوار ی اخراجات بھی بہت کم ہو جاتے ہیں ۔اس لئے سفارش کی جاتی ہے کہ آم کے باغات لگانے کے لیے پودوں کی فی ایکڑ تعداد زیادہ رکھی جائے یعنی 22X27جس سے ایکڑ میں 72پودے آتے ہیں ۔
پودے لگانا 
آم کے پودے موسم بہار یعنی فروری ،مارچ او ر موسم برسات یعنی اگست ستمبرمیں لگائے جاتے ہیں۔موسم بہار میں لگائے گئے پودے زیادہ کامیاب ہوتے ہیں ۔موسم بہار میں نئی پھوٹ شرو ع ہونے سے قبل اور موسم برسات کے اوائل میں پودے لگانا زیادہ بہتر ہے۔باغ کی داغ بیل کاکام پودے لگانے سے دو ماہ قبل مکمل کر لینا چاہیے ۔پودوں کی جگہ کی نشاندہی کرنے کے بعد 3X3X3فٹ کے گڑھے پلانٹنگ بورڈ کے ذریعے نشان لگا کر کھودے جائیں ۔گڑھے کھودتے وقت اوپر کی ایک فٹ مٹی کی تہہ ایک طرف علیحدہ رکھ لیں اور بقیہ نچلی دو فٹ والی مٹی کھیت میں بکھیر دیں اس کے بعد 7سے10دن تک گڑھوں کو کھلا رکھا جائے تاکہ دھوپ لگنے سے نقصان دہ کیڑے اور جراثیم مر جائیں پھر اوپر والی ایک فٹ مٹی ،ایک حصہ بھل اور ایک حصہ گلی سڑی گوبر کی کھاد کو آپس میں اچھی طرح ملا کر گڑھا بھر دیا جائے ۔گڑھوں کو بھرتے وقت اُن کی سطح کو زمین سے 3سے 4انچ اوپر رکھا جائے تاکہ پانی لگانے کے بعد گڑھا زمین کی سطح سے نیچے نہ ہوجائے ۔وتر آنے پر گڑھوں کے درمیان میں پلانٹنگ بورڈ کی مدد سے پودے لگادیں اور پودے کے اردگردوالی مٹی کو اچھی طرح دبا دیں ۔وتر آنے پر دراڑوں کو کھرپہ سے گوڈی کرکے بند کردیں ۔اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ دیسی سٹاک پر پیوند شدہ صحیح اقسام کے صحت مند ،مناسب عمر اور قد کے پودے منتخب کیے جائیں ۔درمیانے قد کے پودوں کا انتخاب زیادہ بہتر ہے۔کیونکہ بڑے پودوں کے سوکھنے کا امکان زیادہ ہو تا ہے۔پیوند کے بعد پودے کی عمر 1 ۔3سال ہونی چاہیے ۔آم کی کاشت کے لیے مختلف اقسام کو مد نظر رکھتے ہوئے 30سے 40فٹ کا فاصلہ رکھا جاتا ہے۔اس طرح ایک ایکڑ میں 27سے 48پودے لگائے جاتے ہیں ۔ہمیشہ ایک سے زیادہ اقسام کاشت کریں اور ہر قسم کا علیحدہ علیحدہ بلاک لگائیں۔لیکن آج کل فی ایکڑ زیادہ پودے لگانے کا رجحان چل پڑا ہے اس لئے اس کو مد نظر رکھا جائے۔
 باغات میں فصلوں کی کاشت 
باغ لگانے کے چند سال بعد تک پودے چھوٹے اور ان کی جڑوں کا نظام بھی محدود ہو تا ہے۔پودوں اور قطاروں کے درمیان کافی جگہ خالی ہوتی ہے جہاں پر جڑی بوٹیاں اُگ آتی ہیں جو مختلف کیڑوں اور بیماریوں کی آماجگاہ بنتی ہیں ۔اس خالی جگہ کو فصلوں کی کاشت کے لیے استعمال کرکے اضافی پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے باغ میں کاشت کے لیے فصل کا انتخاب ایک حساس کام ہے لہذا فصل کا انتخاب مندرجہ ذیل اصولوں کو مدنظر رکھ کر کریں۔
= ۔ کوئی ایسی فصل جو باغ کو نقصان پہنچائے ہر گز کاشت نہ کریں ۔
= ۔ فصل کاشت کرتے وقت پودوں کے گرد اتنی جگہ خالی چھوڑ دیں کہ پودوں کو کھاد دینے ،گوڈی اورسپرے کرنے میں رکاوٹ نہ ہو۔
= ۔ ایسی فصلیں کاشت نہ کریں جن کو بہت زیادہ یا انتہائی کم پانی کی ضرورت ہو تی ہے۔
= ۔ فصلوں کو کاشت کرتے وقت پھلی دار فصلوں کو ترجیح دیں ۔بیلدار سبزیاں ہر گز کاشت نہ کریں۔
= ۔ لمبے عرصے تک کھیت میں رہنے والی فصلیں کاشت نہ کریں۔
= ۔ لمبے قد والی فصلیں مثلاً جوار ،کماد اور مکئی وغیرہ کی کاشت سے گریز کریں۔
= ۔ عموماً زرخیز زمین میں 6سے 8سال تک دوسری فصلیں کاشت کی جاسکتی ہیں ۔تاہم اس عر صے کے بعد پودے بڑے 
ہو جاتے ہیں اور باغ میں کاشت ہونے والی فصلوں کی پیداوار کم ہو نے کے ساتھ ساتھ آم کی پیداوار بھی متاثر ہونا 
شروع ہو جاتی ہے۔لہذا 8سال کے بعد باغ میں کوئی بھی فصل کاشت نہ کریں۔

بیماریاں

آم کی بیماریاں اور ان کا انسداد 

بیماری پہچان/حملہ نوعیت وقت تدارک طریقہ انسداد
آم کی سفید پھپھوندی (Powdery Mildew) پتوں ،شگوفوں اور بوُر پر سفید خاکستری رنگ کے دھبے ۔یہ دھبے بکھرے ہوئے اور بے ڈھنگے ہوتے ہیں ۔شدید حملے کی صورت میں ساری سطح پاؤڈر سے بھر جاتی ہے۔ ۲۵ فی صد پھول کھلنے پراحتیاطی سپرے کریں ۱۔فاسفورس کی کمی کو پورا کریں۔
۲۔ بٹور کی کٹائی کریں۔
۳۔ موثر پھپھوندی کش زہر کا سپرے کریں۔
بلاسم بلائیٹ (Blossom Blight) شگوفوں اور بُورپر جھلساؤ ایضاً ایضاً
آم کاسوکا (Anthracnose) شروع میں متاثرہ درختوں کے پتے کنارے سے خشک ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ یہ بیماری چھوٹی شاخوں تک پھیل جاتی ہے اور درخت اوپر سے نیچے کی طرف سوکھنا شروع ہو جاتے ہیں ۔
 
سال میں دو یا تین مرتبہ سپرے کریں۔
1۔فروری کے پہلے ہفتے 
2۔ستمبر میں
شدید حملہ کی صورت میں 2ہفتہ کے وقفے سے لگاتار دو سپرے کریں۔ 
 
کاپر آکسی کلورائیڈ یا انٹراکال یا کاپر ہائیڈروآکسائیڈ 250سے 300گرام فی 100لٹر پانی میں ملا کر سپرے کریں۔

آم کا جلد مرجھاؤ (Sudden Death or 
Quick Decline)
اس بیماری کی وجہ سے پتے اچانک مرجھا جاتے ہیں اور پودا فوراً سوکھ جاتا ہے چھال سے سیاہ بھورے رنگ کا پانی بہتا ہے۔یہ پودے کی خوراکی نالیوں کو متاثر کرتی ہے۔ بیماری کی ابتدائی تشخیص بہت ضروری ہے گوڈی کے دوران کیڑوں سے پودوں کی جڑوں کو زخمی ہونے سے بچائیں ۔ آبپاشی محتاط طریقہ سے کریں۔بیمار پودے کی ضروریات کاٹ چھانٹ کے ذریعہ کریں۔
آم کابٹور
(Mango Malformation)
اس بیماری کی وجہ سے آم کے پھول گچھوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور پھل نہیں بنتا ۔اس کے علاوہ نباتاتی بٹور عموماً چھوٹے پودوں پر نمودار ہو تا ہے۔ بیماری کی ابتدائی تشخیص بہت ضروری ہے
 
اس بیماری سے بچنے کے لیے درج ذیل حفاظتی تدابیر اختیار کرنی چاہیے۔
1۔ان باغوں میں جہاں بیماری کا حملہ زیادہ ہوتو بیمار چھوٹے درختوں کو زمین سے 4-3فٹ اوپر کاٹ دیں ۔جبکہ بڑے درختوں کی بڑی ٹہنیاں کاٹ دیں ۔
2۔ بٹور سے متاثرہ پودوں کی شاخوں کو 12سے 18انچ صحت مند شاخوں سمیت کاٹ کر جلا دیں یا زمین میں گہرادبا دیں 
3۔نرسری اگانے کے لیے تندرست پودوں کی گٹھلیاں استعمال کریں اور اس کے بعد پیوند کاری کے لیے بھی تندرست درختوں سے شاخیں حاصل کریں

 

کیڑے

نقصان دہ کیڑے اور ان کا انسداد 

نام کیڑا شناخت نوعیت نقصان/پہچان اور حملہ کا وقت طریقہ انسداد
آم کا تیلہ تیلہ کی دو اقسام ہو تی ہیں ایک بڑی اور دوسری چھوٹی ۔بڑی قسم مخروطی شکل اور مٹیالے رنگ کی ہو تی ہیں جبکہ چھوٹی کے بچے رنگ میں زردی مائل اور زیادہ چست ہو تے ہیں ۔ بالغ اور بچے دونوں آم کے پتوں ،ٹہنیوں اور بوُر سے رس چوستے ہیں یہ کیڑا لیس دار مادہ خارج کرتا ہے۔جس پر بعد میں سیاہ رنگ کی پھپھوندی پیداہو جاتی ہے اور پتوں کا خوراک بنانے کا عمل متاثرہو تا ہے۔
 
سپائرو ٹیٹرامیٹ240 ایس سی بحساب 125ملی لیٹر یا تھائیامیکسم 25ڈبلیو جی بحساب 24گرام یا سپرا سائیڈ 150سے 200ملی لٹر یا طالسٹار 80ملی لٹر یا اکٹارا 12-10WG گرام یا کونفیڈور 80ملی لٹر فی 100لٹر پانی میں ملا کر سپرے کریں۔
آم کی گدھیڑی بالغ مادہ بے پر اور چپٹی شکل کی ہوتی ہے جسم پر سفید سفوف ہو تا ہے نر بالغ پر دار چاکلیٹی رنگ کا اور گھریلومکھی سے چھوٹا ہو تا ہے۔  یہ کیڑے پتوں اور نرم شاخوں سے رس چوستے رہتے ہیں اور پودوں کو کمزور بنا دیتے ہیں۔ پروفینو فاس 1000ملی لیٹر یا سلفوکس فلور 50ڈبلیو جی بحساب 75گرام فی سو لیٹر پانی میں ملا کر سپرے کریں اور 15دسمبر سے قبل درختوں کے تنوں پر زمین سے 4-3فٹ کی اونچائی پر چپکنے یا پھسلنے والے رکاوٹی بند لگائیں۔
آم کے خولدار کیڑے اسکسیلز مادہ سکیل گول ہو تی ہے جسم مومی اور چھلکا سے ڈھکا ہوتا ہے جبکہ نر سکیل مادہ کی نسبت چھوٹا ہو تا ہے۔
 
بچے پتوں پر بیٹھ کر رس چوستے ہیں اور وہیں پر اپنے گرد ایک مومی خول بنا کر بالغ ہونے تک یہاں بیٹھ کر رس چوستے رہتے ہیں۔ کلورن ٹرائی نیلی پرول 200ایس سی یا سپائرو ٹیٹرامیٹ 240 ایس سی بحساب 125ملی لیٹر فی 100 لیٹر پانی میں ملا کر سپرے کریں۔ 
 
پھل کی مکھی مادہ مکھی سوئی نما آلہ چبھوکر چاول کے دانوں جیسے باریک انڈے پھل کے اندر دیتی ہیں ۔پھر یہ انڈے سنڈیوں میں تبدیل ہو کر اندر ہی اندر گودا کھا کر نشوونما پاتی ہیں جس سے پھل گل سڑ جاتا ہے۔اگر پھل کاٹ کر دیکھا جائے تو بہت سی رنگ کی سنڈیاں نظرآتی ہیں۔ جی ایف120- این ایف زہر پر دی گئی ہدایات کے مطابق استعمال کریں ۔ نباتاتی طریقہ : فیرومون ٹریپ 6عدد فی ایکڑ کے حساب سے باغات میں لٹکائیں اور ماہرین کے مشورہ سے پروٹین ہایئڈرولائسیٹ اور کسی زہر کو ملا کر پیسٹ بنائیں اس سے مادہ مکھیاں تلف ہو جاتی ہیں۔

آم کے پودوں کی کاٹ چھانٹ (Management  Mango Tree Pruning and Canopy )

پودے کی کا ٹ چھانٹ وہ عمل ہے جس میں سمجھ داری کے ساتھ پودوں کی غیر ضروری شاخیں جو مسائل کا باعث بنتی ہیں جیسے خشک، بیمار،گھنی شاخیں وغیرہ اُن کو کاٹ دیا جاتا ہے تاکہ پودے کی صحت اچھی ہواور اُس سے خوب پیداوار مِل سکے۔  سالانہ ضروری کاٹ چھانٹ سے پودے کے اندر روشنی اور ہوا کا گزر بہتر ہوتا ہے اور اِس سے پودے نہ صرف اندر سے پھل اُٹھاتے ہیں بلکہ یہ پھل بھی زیادہ صحت مند ہوتا ہے اور یہاں کیڑوں اور بیماریوں کا تدارک بھی آسان ہوتا ہے۔  چھوٹے پودوں کی ابتدائی تربیت کرنے سے پودے کی چھتری اور شاخوں کو اپنی مرضی کے مطابق پھیلایا جا سکتا ہے اور ایسا کرنے سے پودا تندرست متوازن اور مضبوط ہو جاتا ہے اور وہ اپنے چاروں طرف موجود جگہ کو زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کرسکتا ہے۔  اِس طرح پودے کی جسامت بھی مقررہ حدود میں رہتی ہے اور یوں ہر پودا اپنے چاروں طرف سے روشنی بھی حاصل کرتا ہے اور وہاں پر نہ صرف کیڑوں اوربیماریوں کاقدرتی تدارک بہتر ہوتا ہے بلکہ کیمیائی تدارک بھی آسان ہوجاتا ہے اِسی طرح پھل کی پیداوار زیادہ اور کوالٹی عمدہ ہوجا تی ہے۔ پودے کی جسامت کو کنٹرول کرنے سے پودے ایک دوسرے کو متاثر بھی نہیں کرتے اور اِس کے ساتھ ساتھ اِس طرح پودوں کی تعداد بھی بڑھائی جاسکتی ہے اور کم وقت میں کاٹ چھانٹ سے باغات بھرپور فصل کے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔  کھیت میں موجود تمام پودے بھرپور پیداوار دیتے ہیں اور اُن سے پھل توڑنا بھی آسان ہوتا ہے۔

 کٹائی کے پودے کی صحت پر اثرات:
٭باقاعدگی کے ساتھ بیمار شاخوں کو کاٹنے سے بیماری کم پھیلتی ہے اور پودے صحت مند رہتے ہیں۔
٭باقاعدگی کے ساتھ کاٹ چھانٹ کرنے سے پودے کے اندر ہوا اور روشنی کا گزر بہتر ہوتا ہے اِس طرح پودوں پر کیڑوں اور بیماریوں کا حملہ کم ہوتا ہے۔  پھول زیادہ آتے ہیں اور پھل زیادہ بنتا ہے اور پھل کی کوالٹی بھی عمدہ ہوتی ہے۔
٭ابتدائی طورپر چھوٹے پودوں کی کاٹ چھانٹ سے پودے زیادہ متوازن رہتے ہیں اور زیادہ اچھی پیداوار دیتے ہیں۔
٭پودوں کی جسامت کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور چھوٹے پودوں پر نہ صرف پھل کا سائز اچھا ہوتا ہے بلکہ پھل کی کوالٹی بھی عمدہ ہوتی ہے۔
٭درمیانے اور چھوٹی جسامت کے پودوں کی دیکھ بھال اور پھل کی برداشت آسان ہے۔
٭چھوٹے پودے زیادہ اچھی اور صحت مند بڑھوتری کرتے ہیں اور اِن شاخوں پر پھل بھی زیادہ آتا ہے۔
٭بروقت کاٹ چھانٹ سے پودوں پر نئی شاخیں جلد نکل آتی ہیں اور یہ سردی کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہو جاتی ہیں۔
٭ چھوٹے پودے باقاعدگی کے ساتھ پھل دیتے ہیں اور صحت مند رہتے ہیں جبکہ بڑے پودے باقاعدگی کے ساتھ وار ابندی کرتے ہیں اور اِن کی صحت کمزور رہتی ہے۔
 

 کاٹ چھانٹ کے اصول:
آم کی کاٹ چھانٹ ایک ایسا عمل ہے جس سے نہ صرف پودوں کی پیداوار کو بہتر بنایا جا سکتا ہے بلکہ یہ پودے زیادہ لمبے عرصے تک بھرپور پیداوار دیتے ہیں۔ پودے کی کٹائی کیسے کرنی ہے اور کتنی کرنی ہے اور پودے کی جسامت کتنی بڑی ہونی چاہیے۔ اِس کا انحصار پودوں کے درمیانی فاصلے پر ہوتا ہے جوکہ موسمی حالات اور اقسام میں موجود خواص پر منحصر ہوتا ہے۔  آم کی کاٹ چھانٹ کیلئے بنیادی اصول درج ذیل ہیں۔
٭پودے کی جسامت کو محدود رکھنے کیلئے وہ تمام شاخیں جو پودے کی مجوزہ جسامت سے باہر نکلیں اِن کو کاٹ دیں۔  یہ عمل پھل توڑنے کے فوراً بعد مکمل کریں تاکہ اِس کے بعد اِن شاخوں پر نئی بڑھوتری ہوسکے۔
٭پودے سے بیمار اور خشک ٹہنیوں کو کاٹ دیں اِس سے پودے کے اوپر بیماریاں کم پھیلتی ہیں اور یوں یہ پودے صحت مند ہوجاتے ہیں۔
٭پودوں کی چھتری میں سورج والی سمت سے روشن دان بنائیں اِس سے پودوں کے اندر روشنی جانا شروع ہو جاتی ہے جو نہ صر ف کیڑے اور بیماریاں تلف کرتی ہیں بلکہ یہ پودے بہتر طورپر اندر سے بھی پھل اٹھاتے ہیں تاہم یہ عمل سردیوں میں بھی کیا جاسکتا ہے۔
٭زمین کے ساتھ لگی تمام شاخوں کو کاٹنے سے پودے کے نیچے چھپے ہوئے کیڑے اور بیماریاں تلف ہو جاتے ہیں۔  
٭ پودے کی تنے اور ٹہنوں کی صفائی سے بہت سے ایسے کیڑے تلف ہوجاتے ہیں جو شدید گرمی اور سردی میں یہاں پناہ لیتے ہیں۔  یہ عمل سردی اور گرمی کے آغاز پر کرنا ضروری ہے۔
٭ موٹی کٹی ہوئی شاخوں پر پھپھوندکش ادویات کا پیسٹ لگائیں اور چھوٹے زخموں پر پھپھوند کش دوائی سے سپرے کریں۔
کٹائی کاسنہری اصول:
پھل توڑنے کے بعد پھل دار شاخوں کی کٹائی کرنے سے ہر شاخ کٹی ہوئی جگہ سے 3-5نئے شگوفے نکالتی ہے اور یہ ساری شاخیں آئندہ سال پھل اٹھاتی ہیں۔  شاخوں کی کٹائی کرتے وقت احتیاط برتنی چاہیے کہ کسی بھی شاخ کو وہاں سے نہ کاٹیں جس کے نیچے پتوں کا گچھا ہو بلکہ وہاں سے کاٹیں جس کے نیچے پتے زیادہ فاصلے پر ہوں تاکہ نئی شاخیں ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر ہوں۔

پودے کی کانٹ چھانٹ کے فوائد:
پودے کی کاٹ چھانٹ سے پیداوار بہتر اور پھل کی کوالٹی بہت عمدہ ہو جاتی ہے اور اس سے
٭کیڑوں اور بیماریوں کا تدارک آسان ہو جاتا ہے۔
٭پودے ہر سال پیداوار دیتے ہیں۔
٭پودے بروقت اورتمام پودے ایک ہی وقت میں پھول لاتے اورپھل دیتے ہیں۔
٭ پھل کی جسامت بہتراور ایک جیسی ہوجاتی ہے۔
٭ بعدا زبرداشت پھل کی زندگی بہتر رہتی ہے۔

جڑی بوٹیوں کی روک تھام

شاخ تراشی /کانٹ چھانٹ
شاخ تراشی کے عمل کو ہمارے کاشتکار بالکل ہی نظر انداز کر دیتے ہیں حالانکہ شاخ تراشی پودوں کی صحت او ر پیداوار بڑھانے کے لیے ایک اہم عمل ہے۔شاخ تراشی ہر سال پھل توڑنے کے بعد کرنی چاہیے۔ ہر طرح کی بیماری سے متاثرہ ،کیڑوں سے حملہ شدہ،سوکھی اور کمزور شاخیں کاٹ دیں۔بٹوروالی شاخوں کو کاٹ کر جلا دیں یا زمین میں دبا دیں ۔زمین پر لگنے والی شاخوں کو بھی کاٹیں کیونکہ یہ شاخیں نہ صرف آم کی گدھیڑی کو درخت پر چڑھنے میں مدد دیتی ہیں بلکہ گوڈی و ہل چلانے میں بھی رکاوٹ بنتی ہیں ۔نیزبیمار ،سوکھی ،بٹوروالی اور کیڑوں سے متاثرہ شاخیں موافق موسم (برسات) میں بیماری کے جراثیم پھیلاتی ہیں ۔اور باغات میں بیماریوں کے پھیلاؤ کا باعث بنتی ہیں لہذا سال میں ایک دفعہ شاخ تراشی کریں اور اس کے بعد پودے پر پھپھوندی کش زہر کا سپرے ضرور کریں۔شا خ تراشی کے بعد کٹے ہوئے ٹہنیوں کے سروں پر بورڈیکس پیسٹ (1:1:10) چونا: نیلا تھوتھا:پانی ،ضرور لگائیں۔
 جڑی بوٹیاں اور ان کاتدارک:
 جڑی بوٹیاں وہ پودے ہوتے ہیں جو ایسی جگہوں پر پائے جاتے ہیں جہاں اُن کی موجودگی قابل قبول نہیں ہوتی اور وہاں یہ آم کے پودوں کے ساتھ خوراک، پانی اور روشنی کیلئے مقابلہ کرتی ہیں۔ باغات میں جڑی بوٹیوں کی موجودگی پودوں کی بڑھوتری کوکم کردیتی ہے جو کہ بالآخر پھل کی پیداوار اور معیار کو متاثر کرتی ہیں۔ جڑی بوٹیوں کی موجودگی بڑے باغات کی نسبت چھوٹے باغات میں زیادہ نقصان کا باعث بنتی ہے۔ آم کے باغات میں بعض اوقات باغبان حضرات گندم، کپاس اور سبزیوں کو آم کے پودوں کی قطاروں میں موجود خالی جگہ پر کاشت کرتے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد آم کے درختوں کے درمیان موجود خالی جگہ سے کچھ منافع حاصل کرنا ہوتا ہے۔ کاشت کی گئی فصل سے منافع حاصل کیا جاسکتاہے اور اکثر اوقات کاشت کی گئی فصل کا خرچ جڑی بوٹیوں کے تدارک کیلئے کیے گئے خرچے سے بہت کم ہوتا ہے۔ آم کے نئے باغات میں جڑی بوٹیوں کے تدارک کیلئے کم دورانیے کی فصل کاشت کرنے کی سفارش کی جاتی ہے، تاہم فصل کا انتخاب کرتے وقت مندرجہ ذیل اصولوں کو مدِنظررکھنا چاہیے۔
٭ بنیادی توجہ آم کی طرف مرکوز ہونی چاہیے کیونکہ اصل فصل کو ملحوظ خاطر لائے بغیر کمایا گیاپیسہ کمزور منصوبہ بندی کی نشانی ہے۔ 
٭پودوں کی دیکھ بھال کیلئے مناسب جگہ چھوڑنی چاہیے۔
٭ آم کے پودوں کی جڑوں میں کسی دوسرے پودے یااس کی جڑ کو پہنچنے سے روکنا چاہیے۔ 
٭کم دورانیے والی فصلوں کا انتخاب کرنا چاہیے اور ان فصلوں کا قد بھی چھوٹا ہونا چاہیے۔ ورنہ آم کے پودے فصل کے مقابلے میں روشنی حاصل کرنے کیلئے لمبوتری شکل اختیار کر لیں گے۔

جڑی بوٹیوں سے ہونے والے نقصانات:
جڑی بوٹیاں آم کے باغات کو بلواسطہ یا بلا واسطہ بہت نقصان پہنچاتی ہیں۔
٭پیداوار میں کمی:جڑی بوٹیاں زیادہ تعداد اور تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے آم کے پودوں کے ساتھ خوراک، پانی اور روشنی کیلئے مقابلہ کرکے پیداوار میں کمی کا باعث بنتی ہیں۔ان جڑی بوٹیوں کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ کئی ہزار بیج پیدا کرتی ہیں جن کو باغ سے نکالنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ عام طورپر ایک سال میں بننے والی جڑی بوٹیوں کے بیج سات سال تک جڑی بوٹیوں کی موجودگی کا باعث بن سکتے ہیں۔اِس لیے باغبانوں کو جڑی بوٹیوں کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اِن کے منفی اثرات سے بچا جاسکے۔

٭حشرات / بیماریوں کی آماجگاہ: جڑی بوٹیاں نقصان دہ کیڑوں اور بیماریوں کیلئے سازگار ماحول فراہم کرتی ہیں جو کہ بلواسطہ یا بلا واسطہ پھل اور پودوں کو نقصان پہنچاتے ہیں مثال کے طورپرفروٹ بورر اپنی پہلی نسل مکمل کرنے کیلئے فر وری،مارچ میں جڑی بوٹیوں پر انحصار کرتا ہے اور پھراپریل، مئی میں آم کے پھل کو نشانہ بناتا ہے۔ 
٭ نقصان دہ جڑی بوٹیاں: بعض جڑی بوٹیاں باغات میں کام کرنے والے افراد کیلئے بہت زیادہ نقصان دہ ہوتی ہیں جوکہ کام کرنے والے لوگوں کی صحت اور کام کرنے میں اور باغ میں چلنا پھرنا دشوار بنادیتی ہیں۔
٭باغ کے روز مرہ امور میں رکاوٹ: بڑے قد والی جڑی بوٹیاں باغ کے اندرونی راستوں اور کام کرنے والوں کی نقل وحرکت میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں اور باغ میں کام کرنے والوں کیلئے طبیعی رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔بعض اوقات جڑی بوٹیاں آم کے پودے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور وہاں سے پھل توڑنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔


 

آبپاشی

آبپاشی 
آم کے پودوں کے لیے پانی کی ضرورت کا انحصار ان کی عمر ،قسم نشوونما ،زمین کی خاصیت اور موسمی حالات پر منحصر ہے۔اچھی پیداوار کے لیے آم کے باغات میں پھول بننے کے عمل سے لے کر پھل کی برداشت تک مناسب آبپاشی کو یقینی بنائیں ۔پھل دار پودوں کو اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں پانی نہ دینا زیادہ مفید ہے۔ اس سے درخت کی نباتاتی نشوونما مناسب وقت پر ہوتی ہے اور بُور بھی زیادہ آتا ہے۔ البتہ پھل بننے کے بعد آبپاشی میں کمی نقصان کا باعث بنتی ہے۔ کیونکہ اس سے پھل کا کیرا زیادہ اور پھل کی جسامت بھی چھوٹی رہتی ہے۔آم کے لیے آبپاشی کی سفارشات درج ذیل ہیں۔

وقت مہینہ وقفہ آبپاشی
پھول نکلتے وقت فروری-مارچ بہت کم آبپاشی مہینہ میں ایک بار
پھول بننے سے بارشوں کے اوائل تک اپریل-آخر جون مہینہ میں کم یز کم تین بار
موسم برسات  جولائی-اگست مہینہ میں ایک یا دو بار
موسم خزاں  ستمبر-اکتوبر آباشی نہ کریں
موسم سرما  نومبر-جنوری سردی سے بچاؤ کے لئے آباشی کریں
کہر کے ایام   کہر کے دنوں میں ہلکی آبپاشی کریں

 

کھادیں

کھادوں کا متناسب استعمال
کھادوں کے استعمال سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے لیے زمین کا تجزیہ کروانا ضروری ہے تاکہ طبعی و کیمیائی خواص کی روشنی میں غذائی ضروریات کا پتہ لگایا جاسکے ۔اس مقصد کے لیے آپ محکمہ زراعت کی ضلع کی سطح پر قائم لیبارٹریوں سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔کھادو ں کی مقدار کا انحصار پودوں کی عمر، پودوں کے قد، زمین کی زرخیزی ،پیداواری ہدف اور آب و ہوا پر ہوتا ہے۔پھل دار پودوں کو دوسری فصلوں کی نسبت خوراک کی زیادہ مقدار میں ضرورت ہوتی ہے۔ زمین اور پانی کے تجزیہ کی لیبارٹری میں آم کے باغات کے مخصوص علاقوں میں مٹی کے جو نمونہ جات ٹیسٹ کیے جاتے ہیں ان کے نتائج سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ باغات کی تقریباً 100فیصد زمینوں میں نائٹروجن اور 95فیصد میں فاسفورس کی کمی ہے ۔جبکہ 50فیصد زمینوں میں پوٹاش درمیانی سطح یا کم مقدار میں ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ زمین کی صحت اور طاقت بحال رکھنے کے لیے متناسب کھاد ڈالی جائے اور کاشتکاروں کو یہ سوچ بدلنی چاہیے کہ باغات میں کم کھاد ڈالنے سے وہ مسلسل اچھی پیداوار لے سکیں گے۔نیز جن باغات میں اجزائے صغیرہ کی کمی ہو وہاں انکا استعمال زمین میں یا پودے پر سپرے کی صورت میں کیا جائے۔
آم کے پھل کی ایک ٹن پیداورار لینے کے لیے پودے زمین سے تقریباً 6.4کلو گرام نائٹروجن ،1.6کلوگرام فاسفورس اور 7کلو گرام پوٹاش حاصل کرتے ہیں ۔عمومی طور پر باغات میں پوٹاش کا استعمال بہت کم ہے۔جبکہ غذائی ضروریات کے اعتبار سے پودوں کو پوٹاش کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔پوٹاش کی کھاد مناسب مقدار میں ڈالنے سے پھل وزنی او ر خوش نما ہو جاتا ہے۔اور اس میں مٹھاس بھی بڑھ جاتی ہے۔اگرچہ ہماری زمینوں میں پوٹاش کی مقدار نسبتاً بہتر ہے مگر اچھی پیداوارحاصل کرنے کے لیے دوسری کھادوں کے ساتھ پوٹاش کا استعمال بہت ضروری ہے۔عمومی سفارشات کی روشنی میں کھادیں مندرجہ ذیل جدول کے مطابق استعمال کریں۔

عناصر کبیرہ کی مقدار فی پودا کلو گراموں میں

پودے کی عمر گوبر کی کھاد نائٹروجن فاسفورس پوٹاش جپسم (کلوگرام)
6 تا 7 سال 30 1.5 1.0 0.5 10 کلو گراپ
8 تا 9 سال 40 2 1.25 1.0 //
10 تا 12 سال 60 2.5 1.50 1.50 //
13 تا 15 سال 80 3.0 2.0 2.0 //
15 سال سے زائد 100 2.0 1.5 1.5 //

 

عناصر صغیرہ زمین میں ڈالنے کے لئے سپرے کیلئے گرام فی 100 لیٹر پانی میں
کاپر سلفیٹ (%24) 50گرام کاپر یا 200گرام کا پر سلفیٹ  200 کاپر سلفیٹ
مینگانیز سلفیٹ (%30.5) 100گرام مینگانیز یا 312گرام مینگانیز سلفیٹ  200 مینگانیز سلفیٹ
فیرس سلفیٹ (%19) 100گرام آئرن یا 526گرام فیرس سلفیٹ  200 فیرس سلفیٹ
بوریکس ( %10.5) 30گرام بوران یا 272گرام بوریکس 60 بوریکس
زنک سلفیٹ (%33) 100گرام زنک یا 435گرام زنک سلفیٹ  240 زنک سلفیٹ

کھاد دینے کے اوقات:
* دسمبر ، جنوری کے آغاز میں فاسفورس ، پوٹاش اور گوبر کی کھاد ڈالیں۔
* اگیتی اور درمیانی اقسام کے لیے تین اقساط میں اورپچھیتی اقسام کے لیے دو اقساط میں نائٹروجن ڈالیں۔
* 1/3حصہ نائٹروجن فروری میں ڈالیں(پھول آنے پر)
* 1/3حصہ نائٹروجن اپریل میں ڈالیں جب پھل بن جائے۔
* 1/3حصہ نائٹروجن بعد از برداشت ڈالیں۔
* 15اگست کے بعد پکنے والی اقسام میں بعد از برداشت نائٹروجنی کھاد نہ ڈالیں اور نائٹروجن کی مکمل مقدار پہلی د و قسطوں میں ہی ڈال دیں ۔
* عناصر صغیرہ کی تجویز کردہ مقدار کو گوبر کی کھاد کے ساتھ ملا کر زمین میں بھی دبایا جاسکتا ہے۔تاہم پودے میں اس کی کمی فوری طور
پر پور ی کر نے کے لیے اُن کا پتوں پر سپرے بھی کیا جاسکتا ہے۔سپرے کرتے وقت مندجہ ذیل باتوں کا خاص خیال رکھیں ورنہ سپرےسے پودوں کو زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہو سکے گا۔
* عناصر صغیرہ کا استعمال زمین اور پتوں کے تجزیہ کے بعد کمی کی صورت میں ہی کرنا چاہیے۔کمی کی صورت میں بھی پہلے دو سال لگاتار استعمال کرنےکے بعد ہر باران کا استعمال ایک سال چھوڑ کرکر ناچاہیے ۔خاص طور پر بوران کے استعمال میں بے حد احتیاط ضروری ہے۔ 
1۔ پودے پر سپرے اُس وقت کریں جب پودا Activeہو۔
2۔ سپرے ٹھنڈے اوقات میں صبح سویرے یا شام کو تاخیر سے کریں تاکہ خوراکی اجزاء پودے کے اندر زیادہ سے زیادہ جذب ہو سکیں ۔
3۔ تمام عناصر صغیرہ کو ملا کر سپرے کرنے سے اجتناب کریں کیونکہ اس سے محلول میں مقدار زیادہ ہو جاتی ہے۔جو پودے کے لیے
نقصان دہ ہو سکتی ہے۔عناصر صغیرہ کو علیحدہ علیحدہ سپرے کرنابہتر رہتا ہے-

کٹائی

پھل کی برداشت 
پھل کو مناسب طریقہ او ر وقت پر برداشت کرکے اگر اچھے انداز میں پیش کیا جائے تو زیادہ منافع حاصل کیا جاسکتا ہے ۔پھل کو بغیر نقصان کے توڑنا ایک محنت طلب کام ہے اس لیے پھل توڑنے والے حضرات کا تجربہ کارہونا ضروری ہے۔پھل نہ تو کچا توڑنا ٹھیک ہے اور نہ ہی پکے ہوئے پھل کو زیادہ دیر تک درخت پر رہنے دینا چاہیے ۔اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ڈنڈی کو پھل کی سطح کے قریب سے قینچی سے کاٹا جائے اور اگر پھل اونچائی پر ہو تو سیڑھی کا استعمال کیا جائے ۔پھل تو ڑنے کے بعد اس کو کپڑے کی تھیلیوں میں ڈال کر نیچے لایا جائے اورحسب ضرورت پیٹیوں میں پیک کیا جائے ۔
 

ذخائر

پنجاب کولڈ اسٹوریج جھنگ
03006509674
شورکوٹ جھنگ روڈ نزد 3 پلی تحصیل شورکوٹ، جھنگ

Crop Calendar