چنا

چنا ربیع کی ایک اہم پھلی دار فصل ہے۔ پھلی دار ہونے کی وجہ سے یہ ہوا سے نائٹروجن حاصل کر کے اسے زمین میں شامل کرتی ہے جس سے زمین کی زرخیزی بحال رہتی ہے۔ یہ غذائیت کے اعتبار سے ایک اہم جنس اور گوشت کے نعم البدل ہے۔

فصل کے بارے

اہمیت:


چنا ربیع کی ایک اہم پھلی دار فصل ہے۔ پنجاب میں تقریبًا بائیس لا کھ ایکڑ رقبے پر چنے کی کاشت کی جاتی ہے جو ہمارے ملک میں چنے کے کل رقبے کا تقریبًا 80 فیصد ہے۔پنجاب میں چنے کا تقریبًا 92 فیصد رقبہ بارانی علاقوں میں کاشت کیا جاتا ہے جس میں زیادہ تر تھل بشمول بھکّر، خوشاب،لیّہ، میانوالی ، جھنگ اور مظفر گڑھ کے اضلاع شامل ہیں۔ ان اضلاع کے بارانی علاقوں کے کاشتکاروں کی معیشت کا انحصار زیادہ تر اسی فصل پر ہے۔چنا غذائیت کے اعتبار سے بھی ایک اہم جنس اور گوشت کا نعم البدل ہے۔ پھلی دار فصل ہونے کی وجہ سے یہ ہوا سے نائٹروجن حاصل کرکے اسے زمین میں شامل کرتی ہے جس سے زمین کی زرخیزی بحال رہتی ہے۔ چنے زیادہ تر کم بارش والے بارانی علاقوں میں کاشت ہوتے ہیں۔ جہاں زیادہ تر دیسی اقسام کاشت کی جاتی ہیں ۔کابلی چنے کی پانی کی ضرورت دیسی چنے کی نسبت زیادہ ہے۔ کابلی اقسام کی کھپت روز بروز بڑھ رہی ہے جسے پورا کرنے کیلئے مختلف ممالک مثلًاایران، آسٹریلیا اور ترکی وغیرہ سے اس کی درآمد کی جاتی ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے کابلی چنے کی پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے کابلی چنے کی مزید بہتر اقسام کی دریافت اور اس کے رقبہ میں اضافہ ضروری ہے۔ مزیدبہتر اقسام کی دریافت اور کابلی چنے کی ستمبر کاشتہ کمادمیں اور دھان کے بعد کاشت کو فروغ دیا جارہاہے۔ علاوہ ازیں دیسی اور کابلی چنے کی دریافت کردہ اقسام اور پیداواری ٹیکنالوجی اپناکر چنے کی اوسط پیداوار کافی حد تک بڑھائی جاسکتی ہے۔ چنے کی اقسام کی بہتری اور پیداواری ٹیکنالوجی پر مزید کام جاری ہے۔
چنے کا رقبہ ،پیداوار اور اوسط پیداوار 
ذیل میں دئیے گئے گوشوارہ میں گزشتہ پانچ سال میں چنے کا زیر کاشت رقبہٗ کل پیداوارٗاور اوسط پیداواردی گئی ہے۔

سال رقبہ (ہزارہیکڑ) رقبہ (ہزارایکڑ) پیداوار (ہزار ٹن) اوسط پیداوار (کلوگرام فی ہیکٹر) اوسط پیداوار (من فی ایکٹر)
2013-14 857.85 2119.84 330.7 385 4.18
2014-15 864.35 2135.90 322.40 373 4.04
2015-16 854.93 2112.16 227.20 266 2.88
2016-17 880.27 2175.24 262.50 298 3.23
2017-18پہلا تخمینہ 887.00 2193.82 274.06 309 3.35
2018-19  856.50 2116.40 377.22 4.78 4.46
2019-20 850.36 2101.23 430.00 5.48 5.12
2020-21(عبوری تخمینہ) 793.58 1961.00 206.58 2.24 2.09

2020-21میں رقبہ میں کمی کی وجہ:    چنے کا رقبہ دوسری فصلات کی طرف منتقل ہوا
2020-21میں پیداوار میں کمی کی وجہ:

  •  فصل کی نشوونماء کے دوران لمبے عرصے تک خشک موسم اوربارش کا نہ ہونا         زیر کاشت رقبہ میں کمی

بیج

دیسی چنے کی ترقی دادہ اقسام
.1 بٹل 2016
بٹل 2016 ز یادہ پیداواری صلاحیت کی حامل دیسی چنے کی یہ قسم ادارہ تحقیقات برائے دالیں، فیصل آباد کی تیار کردہ ہے۔ چنے کی بیماریوں جھلساؤ اور مرجھاؤ کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والی اس قسم کے دانے موٹے اورپیداواری صلاحیت 3993کلو گرام فی ہیکٹر (تقریباً 40من فی ایکڑ)ہے۔ جبکہ اِسکی اوسط پیداوار 23من فی ایکڑ ہے۔ چنے کی کاشت کے تمام علاقوں میں کاشت کے لئے موزوں ہے۔
.2نیاب سی ایچ 2016
دیسی چنے کی یہ قسم نیاب ) NIAB (فیصل آباد میں تیار کی گئی ہے ۔یہ قسم زائد پیداواری صلاحیت کے علاوہ چنے کی خطرناک بیماریوں ، جھلساوٗ اور مرجھاوٗ کے خلاف درمیانی قوت مدافعت رکھتی ہے۔ اس کے دانے موٹے اور خوبصورت شکل کے ہیں۔ یہ قسم پنجاب کے بارانی اور نہری دونوں علاقوں میں کاشت کے لئے موزوں ہے۔
.3بھکر2011
دیسی چنے کی قسم بھکر 2011زیادہ پیداواری صلاحیت کی حامل ہونے کے علاوہ جھلساؤ، جڑ کی سڑن/مرجھاؤ کے خلاف بہترین قوت مدافعت رکھتی ہے۔ اس کے دانے موٹے ہوتے ہیں۔ یہ قسم پیلے پن سے محفوظ رہتی ہے۔ نہری اور بارانی علاقوں میں کاشت کے لئے موزوں ہے۔ علاوہ ازیں بھکر 2011کورے کے خلاف بھی بہت اچھی قوت مدافعت رکھتی ہے۔ اس کے 1000دانوں کا وزن 276گرام تک ہے۔ یہ قسم باقی اقسام کی نسبت پہلے پک کر تیار ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے شدید گرمی سے بھی بچ جاتی ہے۔ اس کی پیداواری صلاحیت 3500کلو گرام فی ہیکٹر ہے اور اوسط پیداوار آبپاش علاقہ میں 1925کلو گرام اور بارانی علاقہ میں 1200کلو گرام فی ہیکٹرتک ہے۔ چنے کی یہ قسم ایرڈ زون ریسرچ انسٹیٹوٹ بھکر کی تیار کردہ ہے۔
.4پنجاب 2008
بہتر پیداواری صلاحیت کی حامل دیسی چنے کی یہ قسم جھلساؤ،مرجھاؤ اور پیلے پن کے خلاف بہتر قوت مدافعت رکھتی ہے۔ اس کے دانے موٹے اور پیداواری صلاحیت تمام مروجہ اقسام سے زیادہ ہے۔ یہ قسم نہ صرف آبپاش بلکہ بارانی علاقوں میں بھی کاشت کے لئے موزوں ہے۔ اس کی کاشت 15اکتوبر سے 7نومبر تک موسمی حالات کو مدنظر رکھ کر کی جا سکتی ہے۔ چنے کی یہ قسم نظامت دالیں ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کی تیار کردہ ہے۔
.5بلکسر 2000
دیسی چنے کی یہ قسم بارانی زرعی تحقیقاتی ادارہ چکوال کی تیار کردہ ہے۔ جھلساؤ اور مرجھاؤ دونوں کے خلاف درمیانی قوت مدافعت رکھنے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پیداواری صلاحیت کی بھی حامل ہے۔ یہ پوٹھوہار کے علاقہ کے لئے نہایت موزوں ہے۔
.6ونہار2000
دیسی چنے کی یہ قسم بارانی زرعی تحقیقاتی ادارہ چکوال کی تیار کردہ ہے۔ یہ قسم پوٹھوہار کے علاقہ کے لئے نہایت موزوں ہے۔ یہ جھلساؤ اور مرجھاؤ کے خلاف درمیانی قوت مدافعت رکھتی ہے۔
.7 بِٹل98
دیسی چنے کی یہ قسم نظامت دالیں،ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کی تیار کردہ ہے۔ بِٹل 98چنے کی مروجہ قسم سی 44میں اصلاح کر کے تیار کی گئی ہے۔ یہ سی44کی طرح تھل کے بارانی علاقوں کے لئے نہایت موزوں ہونے کے ساتھ ساتھ آبپاش علاقوں میں بھی کامیابی سے کاشت کی جاسکتی ہے۔ سی 44آبپاش علاقوں میں پیلے پن کا شکار ہو جاتی ہے جبکہ یہ پیلے پن سے بھی محفوظ رہتی ہے۔ بِٹل 98زیادہ پیداوار کی حامل اور جھلساؤ اور مرجھاؤ دونوں بیماریوں کے خلاف درمیانی قوت مدافعت رکھتی ہے۔ یہ قسم پنجاب میں بارانی اور نہری دونوں علاقوں میں کاشت کے لئے موزوں ہے۔
.8سی ایم 98
دیسی چنے کی یہ قسم نیاب (NIAB)فیصل آباد نے جوہری شعاؤں کے ذریعے تیار کی ہے۔ سی ایم98زیادہ پیداواری صلاحیت کے علاوہ جھلساؤ اور مرجھاؤ دونوں بیماریوں کے خلاف درمیانی قوت مدافعت رکھتی ہے۔ یہ پیلے پن سے بھی محفوظ رہتی ہے۔ اس کے دانے موٹے ہیں۔ یہ قسم پنجاب کے بارانی اور نہری دونوں علاقوں میں کاشت کے لئے موزوں ہے۔
کابلی چنے کی ترقی دادہ اقسام
(1)نور2013
نور2013کابلی چنے کی زیادہ پیداواری صلاحیت کی حامل نئی قسم ہے۔یہ قسم موٹے دانوں ،بہترین شکل و صورت اور پر کشش رنگ کی حامل ہے ۔اس کا دانہ درآمدی چنے کی طرح موٹا اور ذائقہ مقامی اقسام جیسا ہے۔اس کے ہزار دانوں کا وزن 320گرام سے زیادہ ہے۔ اس کی پیدواری صلاحیت 30من فی ایکڑ تک ہے۔یہ قسم چنے کے مرجھاؤ کے خلاف بہتر قوت مدافعت رکھتی ہے اور پنجاب کے نہری اور زیادہ بارش والے بارانی اضلاع میں کاشت کے لئے موزوں ہے۔
(2)ٹمن2013
یہ قسم 2013میں کاشت کے لئے منظور کی گئی ہے۔ ٹمن کابلی چنے کی زیادہ پیداواری صلاحیت کی نئی قسم ہے اور اپنے سائز کی وجہ سے درآمد شدہ چنوں کا بہترین متبادل ہے۔اس کے دانے درمیانے سائز کے ہیں۔ اس کی پیداواری صلاحیت 27من فی ایکڑ ہے اور خشک سالی کے خلاف قو ت مدافعت رکھتی ہے۔ یہ قسم بارانی علاقوں اور پوٹھو ہار میں تمام مروجہ اقسام سے زیادہ پیداوار دیتی ہے۔
(3)نور2009
کابلی چنے کی یہ قسم بہتر پیداواری صلاحیت کی حامل اوربیماریوں کے خلاف درمیانی قوتِ مدافعت رکھتی ہے۔ پنجاب کے نہری اور زیادہ بارش والے بارانی علاقوں میں کاشت کے لئے موزوں ہے۔
(4)سی ایم 2008
کابلی چنے کی یہ قسم نیاب (NIAB) فیصل آباد میں تیار کی گئی ہے۔ یہ قسم کم پانی، بارانی علاقوں اور پوٹھوہار میں بھی تمام مروجہ اقسام سے زیاداہ پیداوار دیتی ہے۔ یہ قسم مرجھاؤ کے خلاف بہتر اور جھلساؤ کے خلاف درمیانی قوت مدافعت رکھتی ہے۔
(5)نور91
کابلی چنے کی قسم نور 91زیادہ پیداواری صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے پودے سیدھے اور لمبے ہوتے ہیں۔ اس کا تنا مضبوط، ٹاڈ اور دانے موٹے ہوتے ہیں۔ یہ قسم نہری اور زیادہ بارش والے بارانی علاقوں کے لئے زیادہ موزوں ہے۔ یہ قسم بھی پیلے پن کے خلاف درمیانی قوت مدافعت رکھتی ہے۔
شرح بیج
عام جسامت کے دانوں والی اقسام کا 30کلوگرام صاف ستھرا،خالص اور صحتمند بیج فی ایکڑ استعمال کریں۔ دیسی اور کابلی چنے کی موٹے دانوں والی اقسام کا بیج 35 کلوگرام فی ایکڑ سے کم استعمال نہ کریں۔ ایک ایکڑ میں 85 سے 95 ہزار پودے ہونے چاہئیں۔بیج کو گریڈنگ کرکے موٹے دانے کاشت کئے جائیں تو شروع میں ہی صحت مندپودے اُگیں گے اور ان کی اچھی نشوونما ہونے سے پیداوار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
بیج کو زہر لگانا
فصل کو بیماریوں سے محفوظ کرنے کیلئے بیج کو سرائیت پزیر زہر لگانا بہت ضروری ہے اس لئے زرعی توسیعی عملہ کے مشورہ سے کاشت سے پہلے بیج کومناسب پھپھوندی کُش زہر ضرور لگائیں
بیج کو جراثیمی ٹیکہ لگانا
بیج کو جراثیمی ٹیکہ لگا کر کاشت کرنے سے پودے کی ہوا سے نائٹروجن حاصل کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے اور زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ ایک ایکڑ کے بیج کو ٹیکہ ) پیکٹ پر درج مقدار( لگانے کے لئے تین گلاس یعنی 750 ملی لیٹر پانی میں 150 گرام )تقریبًا اڑھائی چھٹانک( شکر ٗ گُڑ یا چینی ملا کر شربت کی صورت میں بیج پر چھڑکیں۔ پھر اس میں ٹیکہ ملا کر بیج اور ٹیکہ کو اچھی طرح ملائیں تاکہ ٹیکہ یکساں طور پر بیج کو لگ جائے۔ بیج کو سایہ میں خشک کرنے کے بعد جلدی کاشت کریں۔ کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکہ کی افادیت بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔ یہ ٹیکہ قومی زرعی تحقیقاتی ادارہ اسلام آباد (NARC) ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ(AARI) فیصل آباداور نبجی(NIBGE) جھنگ روڑ فیصل آباد سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
فراہمی بیج
ترقی دادہ اقسام کا بیج پنجاب سیڈ کارپوریشن، نیاب (NIAB) فیصل آباد، نظامت دالیں ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ(AARI) فیصل آباد، بارانی زرعی تحقیقاتی ادارہ (BARI)چکوال اورایرڈ زون تحقیقاتی ادارہ (AZRI) بھکرسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
بیج کی دستیابی
پنجاب سیڈ کارپوریشن کے پاس اس سال مختلف اقسام کا بیج درج شدہ مقدار میں دستیاب ہے۔ 

نمبر شمار نام قسم مقدار بیج (100 کلو گرام )تھیلا نمبر شمار نام قسم مقدار بیج (100 کلو گرام )تھیلا
1 نیاب سی ایچ 16 2299 3 بھکر2011 386
2 پنجاب 2008 519 4 ٹل 2016 257
        توتل 3461

 
 

کاشت

زمین اور اس کی تیاری
چنے کی کاشت کے لئے ریتلی میرا اور اوسط درجہ کی زرخیز زمین زیادہ موزوں ہے۔ کلراٹھی اور سیم زدہ زمین اس کی کاشت کیلئے موزوں نہیں ہے۔چنے کی فصل کیلئے زمین کی زیادہ تیاری کی ضرورت نہیں لیکن پھر بھی آبپاش علاقوں میں زمین کی تیاری کیلئے ایک یا دو بار ہل چلانا ضروری ہوتا ہے۔ آبپاش علاقوں میں پہلا ہل گہرا چلا کر خود رو گھاس، پچھلی فصل کے مڈھ وغیرہ اور جڑی بوٹیوں کی تلفی بہت ضروری ہے۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر ہل اور سہاگہ چلا کر زمین کو اچھی طرح ہموار کر لینا چاہئے۔چنے کی کاشت کے بارانی علاقوں میں مون سون کی بارشوں سے پہلے یا دوران گہرا ہل چلانا ضروری ہے ۔بارانی علاقوں میں ریتلی اور نرم زمین میں پہلے سے محفوظ کردہ وتر میں زمین کی تیاری کئے بغیر بوائی کرنا چاہیے تاکہ وتر ضائع نہ ہو۔ البتہ بارانی علاقوں میں ریتلی میرا زمین میں ایک مرتبہ ہل ضرور چلائیں۔ 
طریقہ کاشت
بارانی علاقہ جات 

بارانی علاقوں میں ریتلی اور نرم زمین میں پہلے سے محفوظ کردہ وتر میں کاشت بذریعہ ڈرل یا پور کریں تاکہ بیج کی روئیدگی اچھی ہو۔ قطاروں کا درمیانی فاصلہ 30 سینٹی میٹر (ایک فٹ) اور پودوں کا درمیانی فاصلہ 15 سینٹی میٹر (6 انچ ) ہونا چاہئے۔ اگر زمین کی زرخیزی زیادہ ہو تو قطاروں کا درمیانی فاصلہ 45 سینٹی میٹر (ڈیڑھ فٹ ) رکھیں۔اگر کاشت سے پہلے بیج کو 6سے 8گھنٹے بھگو کر تھوڑی دیر کے لئے خشک کر کے بوائی کی جائے تو اس سے اگاؤ بہتر ہو گا۔
آبپاش علاقہ جات
چنے کی کاشت ریتلی میرا اور اوسط درجہ کی زرخیز زمین میں کریں۔کاشت بذریعہ ڈرل یا پور کریں تاکہ روئیدگی اچھی ہو۔ قطاروں کا درمیانی فاصلہ 30 سینٹی میٹر )ایک فٹ( جبکہ میرا زمینوں اور زیادہ بارش والے علاقوں میں قطاروں کا درمیانی فاصلہ 45 سینٹی میٹر )ڈیڑھ فٹ( اور پودوں کا درمیانی فاصلہ 15 سینٹی میٹر ) 6 انچ(ہونا چاہئے۔
ستمبر کاشتہ کماد میں چنے کی مخلوط کاشت 
ستمبر کاشتہ کماد میں کابلی چنے کی مخلوط کاشت کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ چار فٹ کے فاصلے پر کاشتہ کماد میں بیڈ کے درمیان چنے کی دو لائنیں کاشت کریں۔جبکہ دو تا اڑھائی فٹ کے فاصلے پر کاشتہ کماد میں چنے کی ایک لائن کاشت کریں۔اس طریقہ کاشت میں بیج کی مقدار15سے20 کلو گرام فی ایکڑ استعمال کریں۔جس جگہ پر پہلی مرتبہ چنے کی فصل کاشت کی جارہی ہو وہاں بیج کو جراثیمی ٹیکہ لگانے کے بعد کاشت کرنے سے پودے کی ہوا سے نائٹروجن حاصل کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے اور زیادہ پیدوار حاصل ہوتی ہے۔

بیماریاں

چنے کی دو بڑی بیماریاں جھلساؤ اور مرجھاؤ ہیں جن سے پیداوار پر برا اثر پڑتا ہے۔ چنے کے جھلساؤ کی بیماری زیادہ نمی اور موزوں درجہ حرارت پر نشوونما پا کر وبائی صورت اختیار کرسکتی ہے اور فصل کے تمام کاشت شدہ رقبہ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ فصل کی پیداوار میں خاطر خواہ کمی کا موجب بنتی ہے۔چنے کے مرجھاؤ یا سوکے کی بیماری زیادہ گرم اور خشک موسم میں فصل پر بری طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں جھلساؤ سے متاثرہ چنے کی فصل کے علاقوں یعنی راولپنڈی،ٗ اٹک اور چکوال کے اضلاع اور چنے کے مرجھاؤ سے متاثرہ علاقوں یعنی زیریں پنجاب اور سندھ کے اضلاع میں امتیاز ممکن تھا لیکن آج کل موسمی حالات میں تبدیلی کے پیش نظر چنے کا مر جھاو یا سوکا زیادہ شدت کے ساتھ نمودارہو رہا ہے۔چنے کی بیماریوں کے بارے میں تفصیل اور تدارک مندرجہ ذیل ہے۔ 

نام بیماری حملہ کی نوعیت انسداد
چنے کا جھلساؤ
(Blight)
Ascochyta Rabie
ابتدائی طور پر پودے کے تمام پتوں پر خاکی بھورے رنگ کے دھبے نمودار ہوتے ہیں۔ پتوں پر دھبے شروع میں چھوٹے چھوٹے سیاہ رنگ کے نقطوں کی صورت میں ہوتے ہیں ۔ سازگار موسمی حالات میں یہ دھبے بڑ ے ہو کر پودے کے تمام حصوں پر پھیل جاتے ہیں اور تمام کھیت اس بیماری کی لپیٹ میں آ جاتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے کھیت جھلس گیا ہو۔ اسی بنا پر اس بیماری کو جھلساؤ کا نام دیا گیا ہے۔ جنوری سے آخر مارچ تک اگر موسم خشک رہے تو بیماری کی علامات کی شدت میں کمی آ جاتی ہے لیکن اگر ان ایام میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہو جائے تو بیماری تیزی سے پھیل کر ساری فصل کی تباہی کا باعث بنتی ہے 
 
* بیماری کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والی ترقی دادہ اقسام کاشت کی جائیں ۔ اِن میں بلکسر 2000 ٗبٹل 2016پنجاب 2008 ٗ ونہار 2000 ٗ بٹل 98 ،سی ایم98 ،سی ایم 2008،نیاب سی ایچ 2016،بھکر 2011 ،نور2013 اورنور91 شامل ہیں۔
* فصل کی گہائی کے بعد چنے کے بھوسہ کو کھیت میں نہ رہنے دیں۔ یہ عمل موسم برسات کی بارشوں سے پہلے کر لینا اشد ضروری ہے۔ 
* چنے کی کاشت سے پہلے صحت مند بیج کوپھپھوندی کشُ زہر ضرور لگائیں۔
چنے کا مرجھاؤ یا سوکا(Wilt)
Fusarium oxysporum and 
Phytophthora megasperma

 
معتدل درجہ حرارت اس بیماری کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے لہذا اس بیماری کا حملہ اکتوبر اور مارچ کے مہینے میں ہوتا ہے۔ حملہ کی صورت میں پودے مرجھا کر سوکھ جاتے ہیں۔ F.oxysporumکا حملہ بارانی اور خشک علاقوں میں ہوتا ہے جبکہ P.megaspermaکا حملہ زیادہ تر آبپاش علاقوں میں ہوتا ہے۔ مرجھاؤ کا حملہ پودوں کی بڑھوتری کے ابتدائی مراحل میں بھی ہوسکتا ہے اور جوان اور پختہ پودے بھی اس بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔کھیت میں اس بیماری کے شکار پودے ٹکڑیوں میں نظر آتے ہیں جو کہ سال بہ سال بڑھتی جاتی ہے۔ پختہ پودوں پر بیماری کی صورت میں یا تو ان کے ٹاڈوں میں دانے بنتے ہی نہیں یا پھر چھوٹے رہ جاتے ہیں اور پیداوار بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ دونوں قِسم کی پھپھوند کے حملہ کی صورت میں پودے کے تنے کے اندر خوراک اور پانی لے جانے والی نالیاں مفلوج ہو جاتی ہیں اور پودا مرجھانا شروع ہو جاتا ہے۔ *بیماری کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والی اقسا م مثلاًَ بلکسر2000 ٗبٹل 2016،پنجاب 2008، ونہار 2000، بٹل 98،سی ایم98 ،سی ایم2008،نیاب سی ایچ 2016،بھکر2011 ،نور 2013اورنور91 کاشت کریں۔
*چنے کی کاشت سے پہلے بیج کوپھپھوندی کشُ زہر ضرور لگائیں۔اس سے پودا ابتدائی مراحل میں حملہ سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
*فصلوں کا ادل بدل اپنائیں۔
چنے کے پودوں کا اکھیڑا اورجڑوں کا گلاؤ
(Root Rot)
Complex cause
Rhizoctonia sp.
Macrophomina sp
 
اِس بیماری کے حملہ کی صورت میں پودے کی جڑ کی کھال ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ جڑ گل سڑ جاتی ہے۔پودے اچانک مرجھا جاتے ہیں۔ اِس بیماری کے شکار پودے آسانی سے کھینچے جا سکتے ہیں۔یہ بیماری بھی کھیت میں ٹکڑیوں کی شکل میں نظر آتی ہے جو کہ بتدریج بڑھتی جاتی ہے۔ *فصلوں کا ادل بدل اپنائیں۔
*بیج کو مناسب زہر لگا کر کاشت کریں۔
*بیماری سے زیادہ متاثر کھیت میں آئندہ دو ، تین سال تک چنا نہ کاشت کیا جائے۔
بوٹرائٹس بلائٹ 
(Grey Mold) 
Botrytis cinerea
 
اس بیماری کے حملہ کی صورت میں فصل پر پھول آنے کے وقت پودوں کے اوپر والے حصوں پر بھورے رنگ کی پھپھوندی نمودار ہوتی ہے۔ پھول جھڑ جاتے ہیں اور پھلیوں میں دانے کم اور جھری دار بنتے ہیں۔ *متاثرہ پودوں اور ان کی باقیات تلف کریں تاکہ آئیندہ فصل کو اس بیماری سے بچایا جا سکے۔
*بیج صحت مند فصل سے لیں۔
*فصل زیادہ گھنی اوراس کی بڑھوتری زیادہ نہ ہونے دیں۔
*کاشت سے پہلے بیج کو پھپھوندی کش زہر لگائیں۔
 
چنے کے تنے کا گلاؤ
Sclerotinia minor
 
یہ بیماری زیادہ تر آب پاش علاقوں میں پائی جاتی ہے۔اس بیماری میں پودوں کے تنوں کا نچلا حصہ (Collar portion)متاثر ہو کر گل جاتا ہے۔ابتداء میں متاثرہ حصہ سیاہ ہو جاتا ہے۔پانی اور خوراک کی ترسیل متاثر ہونے کی وجہ سے پودا سوکھ جاتا ہے۔ *متاثرہ کھیت میں کم از کم تین سال تک چنا کی فصل کاشت نہ کریں۔
* فصلو ں کا ادل بدل اپنائیں۔
* متاثرہ کھیت سے پودوں کی باقیات اچھی طرح تلف کریں۔
* جون،جولائی کے مہینے میں خالی کھیت میں مٹی پلٹنے والا ہل چلا کر کھیت کو کچھ عرصہ خالی رہنے دیں۔

 

کیڑے

چنے کے نقصان رساں کیڑے اور ان کا انسداد
 

نام کیڑا پہچان نقصان انسداد
دیمک (Termite) یہ کیڑا ایک کنبہ کی شکل میں رہتا ہے۔ اس میں بادشاہ ‘ ملکہ‘ سپاہی اور کارکن ہوتے ہیں۔ فصلوں کا نقصان صرف کارکن کرتے ہیں جن کی رنگت ہلکی پیلی، سر بڑا اور جسامت عام چیونٹی سے بڑی ہوتی ہے۔ پودوں کی جڑوں پر حملہ کرتی ہے اور زمین میں سرنگیں بناتی ہے۔ حملہ شدہ پودے سوکھ جاتے ہیں۔ دیمک کا حملہ فصل اگنے سے کٹائی تک بھی ہو سکتا ہے۔ *کھیتوں میں کچی گوبر کی کھاد بالکل استعمال نہ کریں۔
*بروقت آبپاشی سے بھی دیمک کا حملہ کم ہوجاتا ہے۔
*بارانی علاقوں میں مناسب مقدار میں زہر کو ریت یا مٹی میں ملا کر زمین کی تیاری کے وقت کھیتوں میں بکھیر دیں۔
ٹوکا
(Grass hopper)
کیڑے کا رنگ مٹیالہ جسم مضبوط اور تکون نما ہو تا ہے۔ اگتی ہوئی فصل کے چھوٹے پودوں کو کاٹ کر کھاتا ہے۔
 
*دستی جال سے بالغ ٹوکہ کو پکڑ کر تلف کریں۔
*کھیت کو ہرقسم کی جڑی بوٹیوں سے پاک رکھیں۔
 
چور کیڑا
(Cut worm)
پروانہ جسامت میں بڑا اور پروں کا رنگ گندمی بھورا ہوتاہے۔اگلے پروں کے کناروں کی طرف گردے کی شکل کا دھبہ ہوتا ہے۔پچھلے پر سفید یا زرد ہوتے ہیں۔سنڈی کا رنگ سیاہ اور قد میں کافی بڑی ہوتی ہے۔
 
سنڈیاں دن کے وقت پودوں کے قریب مٹی میں چھپی رہتی ہیں اور رات کے وقت چھوٹے پودوں کو کاٹ کاٹ کر فصل کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ *ناقابل استعمال پتوں اور سبزیوں کو کاٹ کر شام کو ڈھیریوں کی شکل میں رکھیں اور صبح ان ڈھیریوں کے نیچے چھپی ہوئی سنڈیاں تلف کریں۔
* گوڈی کر کے پانی لگائیں۔
 
سست تیلہ
(Aphid)
قد میں چھوٹا اور رنگت میں سبزیا پیلا ہوتا ہے ۔ پیٹ کے او پر موجود نالیوں سے لیس دار رطوبت نکلتی رہتی ہے ۔ کیڑا پر دار اور بغیر پر دونوں حالتوں میں موجود ہوتا ہے۔ فصل تیار ہونے کے قریب ہو تو یہ کیڑا رنگت میں سیاہ اور پردار ہو جاتا ہے ۔یہ کیڑا بہت آہستہ آہستہ چلتا ہے۔ پتوں کی نچلی سطح سے رس چوستا ہے جس سے پودے کمزور ہوجاتے ہیں۔ یہ میٹھالیس دار مادہ خارج کرتا ہے جس پر کالی پھپھوندی اُگ آتی ہے جس سے ضیائی تالیف کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ یہ وائرسی امراض پھیلانے کا سبب بنتا ہے۔ *جڑی بوٹیاں تلف کریں۔
* مفید کیڑوں خاص کر کچھوا بھونڈی،لیڈی برڈ بیٹل یا کرائی سو پرلا کی حوصلہ افزائی کریں۔ 
لشکری سنڈی
(Army Worm)
پروانہ ہلکے بھور ے رنگ کا ہوتا ہے۔اگلے پَر گہرے بھورے رنگ کے ہوتے ہیں جن کی اُوپر والی سطح پر سفید رنگ کی لکیروں کا جال بچھا ہوتا ہے اور کہیں کہیں سیاہ دھبے ہوتے ہیں جبکہ پچھلے پر سرمئی رنگ کے ہوتے ہیں۔ سنڈی کا رنگ سبزی مائل بھورا ہوتا ہے۔ جسم پر سفید لائنیں ہوتی ہیں۔ ہاتھ لگانے سے فوراًگول ہوکر گرجاتی ہے۔ شدید حملہ کی صورت میں سنڈیاں لشکرکی صورت میں پودوں کو ٹنڈ منڈ کر دیتی ہیں اور ایک کھیت سے دوسرے کھیت کی طرف یلغار کرتی ہیں۔ *حملہ شدہ کھیتوں کے گرد کھائیاں کھودیں تاکہ سنڈیاں دوسرے کھیتوں کی طرف منتقل نہ ہو سکیں۔ 
*ان کھائیوں میں زہر پاشی کا عمل کیا جائے یا پانی لگا کر مٹی کا تیل ڈال دیا جائے۔ 
* لشکری سنڈی کو پرندے رغبت سے کھاتے ہیں اس لئے پر ندوں کی حوصلہ افزائی کریں۔
* جڑی بوٹیاں تلف کی جائیں۔
*زمین میں چھپے ہوئے کویوں کو تلف کریں۔
*شروع میں حملہ ٹکڑیوں میں ہوتا ہے اور سنڈیاں ایک جگہ پر کافی تعداد میں ہوتی ہیں۔اس وقت ان کا انسداد زیادہ موثر اور کم خرچ ہوتا ہے۔
ٹاڈ کی سنڈی
(Pod borer)
اس سنڈی کاپروانہ پیلے اور بھورے رنگ کا ہوتا ہے۔ سنڈی کا رنگ سبزی مائل ہوتا ہے۔پیوپاگہرے کالے بھورے رنگ کا ہوتا ہے۔موسم اور خوراک کے لحاظ سے سنڈی اپنا رنگ بدل لیتی ہے۔سنڈی کے جسم پر لمبائی کے رخ دھاریاں ہوتی ہیں اور جسم پر ہلکے ہلکے بال بھی ہوتے ہیں۔ سنڈی پھلیوں میں سوراخ کرکے اندرداخل ہوجاتی ہے اور دانوں کو کھاتی رہتی ہے۔  * جڑی بوٹیاں تلف کی جائیں۔
*چڑیاں سنڈیوں کو بڑے شوق سے کھاتی ہیں اس لئے کھیتوں میں انہیں بیٹھنے کے لئے درختوں یا ڈنڈوں سے رسیاں باندھ کر جگہ مہیا کی جائے۔
*روشنی کے پھندے لگائیں۔

نوٹ:
کیڑوں کے کیمیائی انسداد کے لئے محکمہ زراعت کے عملے سے مشورہ کر کے ایسی زہروں کا انتخاب کریں جو نقصان دہ کیڑوں کے خلاف موثر اور کسان دوست کیڑوں کے لئے کم نقصان دہ ہوں۔

جڑی بوٹیوں کی روک تھام

جڑی بوٹیوں کی تلفی
چنے کی فصل میں شروع ہی سے جڑی بوٹیوں کی تلفی نہایت ضروری ہے۔ چنے کی فصل کو پیازی ، باتھو ،کرنڈ، چھنکنی بوٹی،لیہلی،رُت پھلائی ، دُمبی سٹی اور ریواڑی نقصا ن پہنچاتی ہیں۔ جڑی بوٹیوں کی تلفی مندرجہ ذیل طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔
(1)گوڈی کا طریقہ
جڑی بوٹیوں کی تعداد کم ہونے کی صورت میں جڑی بوٹی مار زہروں کی بجائے گوڈی کو ترجیح دیں۔ پہلی گوڈی فصل اگنے کے 30تا 40 دن بعد اور دوسری گوڈی پہلی گوڈی کے ایک ماہ بعد کریں۔ریتلے علاقوں میں جڑی بوٹیوں کی تلفی بذریعہ روٹری نہایت آسان ہے۔
(2)تلفی بذریعہ جڑی بوٹی مار زہریں
جڑی بوٹیوں کے تدارک کیلئے کیمیائی زہروں کا استعمال ایک نہایت موثر طریقہ ہے تاہم بارانی علاقوں میں ان کا استعمال نہایت احتیاط سے کرنا چاہئے۔ جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لئے محکمہ زراعت پنجاب کے مقامی توسیعی عملہ کے مشورہ سے زہروں کا استعمال کریں۔
طریقہ استعمال
زمین کی تیاری کے وقت زہر کی سفارش کردہ مقدا ر15 سے 20 کلوگرام ریت میں ملا کر کھیت میں چھٹہ کریں۔ بعد ازاں آخری ہل چلا کر فصل کو ڈرل سے کاشت کریں۔ بصورت دیگر بوائی کے وقت سہاگہ سے پہلے سفارش کردہ زہر کی مقدار کو پانی کی مناسب مقدار 150) لیٹر فی ایکڑ( میں ملا کر سپرے کیا جا سکتا ہے۔

آبپاشی

آبپاشی
چنے کی فصل کو پانی کی کم ضرورت ہوتی ہے۔ تھل کے علاقوں میں فصل کی کامیابی کا انحصار بارشوں پر ہوتا ہے۔ موسم سرما کی معمولی بارشیں فصل کی کامیابی کے لئے کافی ہوتی ہیں۔ بارش کم ہونے کی صورت میں پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ آبپاش علاقوں میں بارش نہ ہونے کی صورت میں خصوصًَا پھول آنے پر اگر فصل سوکا محسوس کرے تو ہلکا سا پانی لگا دیں۔ کابلی چنے کے لئے پہلا پانی بوائی کے 60-50 دن بعد اور دوسرا پھول آنے پر دیں۔ دھان کے بعد کاشت کی گئی فصل کو آبپاشی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ستمبر کاشتہ کماد میں چنے کی کاشتہ فصل کو کماد کی ضرورت کے مطابق آبپاشی دیں۔
چنے کا قد کنٹرول کرنا
اگر اگیتی کاشت ، کثرت کھاد یا بارش وغیرہ کی وجہ سے فصل کا قد بڑھنے لگے تو مناسب حد تک پانی کا سوکا لگائیں یا کاشت کے دو ماہ بعد شاخ تراشی کریں۔

کھادیں

کھادوں کا استعمال
چنے کی فصل کو نائٹروجنی کھاد کی کم ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ فصل اپنی نائٹروجنی کھاد کی ضرورت کافی حد تک خود پوری کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جو جراثیمی ٹیکہ لگانے سے مزید بڑھ جاتی ہے۔ البتہ فاسفورسی کھاد کے استعمال سے دانے موٹے اور زیادہ تعداد میں بننے سے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ کھاد کے استعمال کے لئے کھیت میں وتر کا مناسب مقدار میں ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا آبپاش علاقوں میں اس فصل کے لئے کھادیں دئیے گئے گوشوارہ کے مطابق استعمال کریں۔ کھاد بوائی سے قبل زمین تیار کرتے وقت ڈالنی چاہئے۔
 

نائٹروجن(کلوگرام فی ایکڑا) فاسفورس(کلوگرام فی ایکڑا) تعداد بوری فی ایکڑ
13 34 ڈیڑھ بوری ڈی اے پی یا آدھی بوری یو ریا + ڈیڑھ بوری ٹرپل سپر فاسفیٹ یا
ایک بوری نائٹروفاس + ایک بوری ٹرپل سپرفاسفیٹ یا آدھی بوری یوریا +چار بوری سنگل سپر فاسفیٹ18%


بارانی علاقے جہاں مناسب وتر موجود ہو وہاں ایک بوری ڈی اے پی فی ایکڑ کاشت کرتے وقت استعمال کرنی چاہئے۔ جن بارانی علاقوں میں زمیندار کھاد استعمال نہیں کرتے انہیں چاہئے کہ وتر کی صورت میں ایک بوری ڈی اے پی ضرور ڈالیں۔ جن ریتلے بارانی علاقوں میں بوائی زمین کی تیاری کئے بغیر کی جاتی ہے وہاں کھاد سیاڑوں کے ساتھ ڈرل کریں۔

کٹائی

برداشت
پنجاب کے وسطی علاقوں میں چنے کی برداشت وسط اپریل میں اور شمالی علاقوں میں آخر اپریل سے شروع مئی میں کی جاتی ہے۔ پکی ہوئی فصل کی برداشت کی تاخیر سے ٹاڈ جھڑنے کی وجہ سے پیداوار میں کمی کا احتمال ہوتا ہے لہٰذا 80 فیصد ٹاڈ پکنے پر برداشت کریں۔ برداشت کیلئے صبح کا وقت موزوں ہے۔جس فصل سے بیج رکھنا مقصود ہو اس کی برداشت سے پہلے اسے غیراقسام اور بیماری سے متاثرہ پودوں سے ضرور صاف کر لیں۔ کٹی ہوئی فصل کو دھوپ میں خشک کرنے کے بعد گہائی کریں۔ گہائی کیلئے تھریشر استعمال کریں۔ بیج کو خشک اور صاف کرکے سٹور میں محفوظ کرلیں۔
سٹور کو کیڑوں سے پاک کرنے کے لئے7کلوگرام لکڑی فی ہزار مکعب فٹ جلائیں اور سٹور کو 48 گھنٹے تک بند رکھیں یا پھر سٹور میں محکمہ زراعت کے مقامی عملہ سے مشورہ کرکے موزوں زہر سپرے کریں۔ پرانی بوریوں کوپانی میں سفارش کرہ نسبت سے زہر ملا کر اس میں ڈبوئیں اور خشک کرلیں۔ مزید احتیاط کیلئے سٹور میں زہریلی گیس والی گولیاں بحساب 40تا 50 گولیاں فی ہزار مکعب فٹ استعمال کریں۔
 

ذخائر

Crop Calendar